اقرار الحسن تشدد: ’میں بہت دکھی اور غصے میں ہوں‘

یہ خبر سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر اقرار الحسن کے حق میں ٹرینڈ چلنا شروع ہو گیا اور  معروف شخصیات اس واقعے کی مذمت کرنے لگے۔

اقرار الحسن پر حملے کے بعد ان کی چند تصاویر  اور ویڈیو ز صحافی وسیم بادامی نے اپنے ٹوئٹر سے شیئر کیں (تصویر: وسیم بادامی/ ٹوئٹر)

پاکستان میں نجی ٹی وی چینل اے آر وائے سے وابستہ اینکر اقرار الحسن کو  مبینہ طور پر انٹیلیجنس بیورو کے ایک افسر کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنانے کی خبریں گذشتہ رات سے سوشل میڈیا پر زیر گردش ہیں۔

اس حوالے سے صحافی اقرار الحسن نے اے آر وائے سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ’انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے انسپکٹر کی کرپشن بےنقاب کرنے پر انہیں اور ان کی ٹیم کو آئی بی کے دفتر میں برہنہ کرکے کرنٹ لگایا گیا اور ویڈیوز بھی بنائی گئیں۔‘

ٹیم اور خود پر تشدد کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا: ’ہمیں دھمکیاں بھی دی گئیں کہ اگر آئی بی کے افسر کے کرپشن کے ثبوت منظر عام پر لائے گئے تو ان کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آ جائیں گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کرپشن کو سامنے لانے پر ہمیں تین گھنٹے تک بند رکھا گیا اور بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مجھے سر پر آٹھ، دس ٹانکے آئے ہیں۔ باقی تمام ٹیم ممبران ٹھیک ہیں جب کہ دو  اراکین کے مخصوص اعضا کو بجلی کے جھٹکے لگائے گئے جس کی وجہ سے وہ شدید تکلیف میں ہیں۔‘

واقعے کے متعلق دیگر معلومات دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’انٹیلیجنس بیورو کے انسپکٹر دفتر کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر رشوت لے رہے تھے، ہم نے انہیں (سٹنگ آپریشن کی غرض سے) رشوت دی اور ثبوت لے کر اندر گئے تاکہ ان کے افسران کو اس سے آگاہ کیا جا سکے، تاہم دفتر میں موجود ڈائریکٹر سید رضوان شاہ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ ہم پر ٹوٹ پڑے اور ہمیں برہنہ کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔’

بعد ازاں اقرارالحسن کو شدید زخمی حالت میں عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں انہیں طبی امداد دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعظم آفس نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈائریکٹر آئی بی رضوان شاہ سمیت پانچ آئی بی افسران کی معطلی کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

یہ خبر سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر اقرار الحسن کے حق میں ٹرینڈ چلنا شروع ہو گیا اور  معروف شخصیات اس واقعے کی مذمت کرنے لگے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عامر لیاقت حسین نے وزیر اعظم عمران خان سے اس واقعے کا نوٹس لینے کی درخواست کرتے ہوئے ٹویٹ کی: ’میں بہت دکھی اور غصے میں ہوں۔ اقرار الحسن کے ساتھ روا رکھا گیا بدترین رویہ نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ ناقابل برداشت بھی ہے۔ میں وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس واقعے کا نوٹس لیں اور ذمہ داران کا تعین کریں۔‘

میاں عمر نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’آپ اقرار الحسن کے خیالات سے اختلاف یا اتفاق کر سکتے ہیں مگر اقرار الحسن پہ حملہ انتہائی قابل مذمت ہے۔‘

اقصیٰ کینجھر نامی خاتون نے تحریر کیا:’صحافت نہ ہی دہشت گردی ہے اور نہ ہی جرم۔‘

جہاں زیادہ تر سوشل میڈیا صارفین اقرار الحسن کے حق میں آواز بلند کر رہے تھے وہیں کچھ افراد نے اینکر پرسن کے ’سٹنگ آپریشن‘ کی مخالفت بھی کی۔

نعمان ہاشمی نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا: ’معذرت کے ساتھ جب کرپشن، رشوت پکڑنے کو متعلقہ فورم موجود ہے تو میڈیا کا تو یہ کام ہی نہیں جو یہ محترم کرتے ہیں، نہ ان کو اختیار ، ایسی چیزوں سے سوائے چینلز کے لیے ریٹنگز حاصل کرنے کا کچھ حاصل نہیں ہوا ، ان کے ایسے چھاپوں سے کتنی ذخیرہ اندوزی، کرپشن، جعل سازی کم ہوئی ہے؟‘

عدنان قمر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ’یہ پولیس کا کام ہے نہ کہ ان (اقرار الحسن) کا۔ انہیں پولیس کو درخواست دینی چاہیے تھی نہ کہ اپنے پروگرام کی ریٹنگ کے لیے خود ہیرو بننے کی کوشش کرتے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل