یوکرین میں میری دکان پر راکٹ گرا: پاکستانی شہری

والدہ کی عیادت کے لیے چارسدہ آئے بزنس مین امجد علی روسی حملے کے باعث واپس یوکرین جانے سے قاصر اور وہاں اپنے اہل خانہ کے لیے پریشان ہیں۔

ان دنوں پاکستان میں موجود صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ کے بزنس مین امجد علی یوکرین میں اپنے اہل خانہ کے لیے پریشان ہیں۔

19 سالوں سے یوکرین میں رہنے والے امجد پچھلے سال چارسدہ کے گاؤں خانمائی میں اپنی والدہ کی عیادت کے لیے آئے تھے لیکن کروبنا وبا کے باعث واپس نہ جا سکے۔

اب وہ روسی حملے کے بعد یوکرین کے شہر دونبیس میں اپنی بیوی اور 11 سالہ بیٹے کے لیے پریشان ہیں۔

50 سالہ امجد نے بتایا: ’میں نےایئروناٹیکل انجینیئرنگ کی ڈگری حاصل کی ہے اور دونبیس میں اپنا کاروبار ہے۔‘

دونبیس میں ان کی تین دکانیں اورگھر ہیں۔ امجد علی نے بتایا ان کی دو موبائل فون کے سامان اورایک گارمنٹس کی دکان ہے۔

’کل میرا فیملی کے ساتھ رابطہ ہوا تھا تو بیوی نے بتایا کہ ادھربہت براحال ہے اور جب میں نے انہیں محفوظ جگہ جانے کو کہا توانہوں نے جواب دیا کہ راستے بند ہو چکے ہیں اورجانا بہت مشکل ہے۔

’ہم ابھی گھرمیں بنائے گئے بنکر میں ہوتے ہیں، حالات ٹھیک ہوجائے تو پھرنکلیں گے۔‘

یوکرین میں کاروبار سے متعلق امجد نے بتایا: ’میر ادھر گھراور کاروبار ہے جو بالکل بند پڑا ہے۔ پہلے تو ہم دن میں 250  ڈالرز تک کماتے تھے۔

’ابھی تو دکانوں کا کرایہ بھی نہیں ہوتا جبکہ میری ایک دکان پرراکٹ بھی گرا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہاں تقریباً تین، چارسو پاکستانی رہتے ہیں اور ساری کاروباری لوگ ہیں جن کا کاروباربہت متاثر ہوا ہے۔

 ’دونبیس میں ہمارے قریب 18 سے 20 پاکستانی رہتے ہیں۔ اس شہرکا پورا کنٹرول روس کے پاس ہے۔‘

امجد علی نے کہا کہ آٹھ مارچ کو واپس جانے کا پلان تھا اور ٹکٹ بھی بک تھا مگر حالات خراب ہوگئے۔

’میرا پلان یہ ہے کہ یوکرین میں ایئرپورٹ بند ہے تو میں پولینڈ کی جانب نکلوں گا پھر آگے دیکھیں گے کہ ادھرکیا حالات ہوں گے۔‘

امجد علی نے کہا: ’پاکستانیوں کے لیے یوکرین کاروبارکے لحاظ سے بہت بہتر ہے اور جو ملک معاشی لحاظ سے اوپر جا رہا ہو وہاں پاکستانیوں کے لیے دوسرے ملکوں کی نسبت کاروبار بہت اچھا ہے۔

’وہاں پر زیادہ تر ہم پاکستانی اپنا کاروبارکرتے ہیں جس میں پینٹ، الیکٹرونکس کی اورگاڑیوں کے پارٹس کی دکانیں ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ یوکرین میں پھنسے پاکستانیوں کی مدد کی جائے، خاص طور پر دفتر خارجہ اور ایمبیسی کیونکہ کھانے پینے کی اشیا ختم ہورہی ہیں۔

’ہم تین، چاردوست ماہانہ چھ ہزار ڈالرز پاکستان بھیجتے تھے۔ ہمارا اتنا بڑا کاروبار نہیں لیکن یوکرین میں بڑے بڑے کاروبار ہیں اور پاکستانیوں کی وہاں پر سٹیل ملیں بھی ہیں۔‘

امجد نے بتایا کہ انہوں نے کیئف میں ایک دوست کے ساتھ رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہ وہ پولینڈ کے لیےنکل رہے ہیں کیونکہ اس وقت بھی گولہ باری ہورہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا