زندگی کی خوبصورت یادیں سمندر سے جڑی ہیں: گوادر کے کشتی ساز

گذشتہ 40 سالوں سے کشتی سازی سے وابستہ عبدالغنی بلوچ کو یومیہ ایک ہزار روپیہ اجرت ملتی ہے۔

بلوچستان میں سمندر کے کنارے آباد شہر گوادر کے زیادہ تر لوگوں کا گزر بسر ماہی گیری سے وابستہ ہے، مگر 2022 میں بھی اس صعنت کو وہ سہولیات میسر نہیں جو دوسرے ملکوں میں عام ہو چکی ہیں۔

گوادر میں کشتی سازی سے جڑے افراد بڑی مشکل سے اپنے گھر کا خرچہ پورا کرتے ہیں۔ گذشتہ 40 سالوں سے کشتی سازی سے وابستہ عبدالغنی بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ بچپن سے ہی اس کام میں اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے آ رہے ہیں۔

عبدالغنی کے دادا پردادا بھی اسی کام سے وابستہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ہنر انہیں وراثت سے ملا اور وہ  اسے آگے اپنے بچوں اور دیگر قریبی رشتہ داروں میں منتقل کر رہے ہیں۔

’ہماری زندگی کے خوبصورت لمحات اور یادیں اسی سمندر کے کنارے سے وابستہ ہیں۔ ہم صبع نو بجے آتے ہیں، پھر شام کو چلے جاتے ہیں۔

’اس دوران بس دو گھنٹے کھانے اور نماز کا وقفہ ہے۔ باقی وقت ہم لکڑی اور کلہاڑی سے کشتیاں بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ وہ یہ کام دھاڑی پر کرتے ہیں جس میں انہیں روزانہ ایک ہزار روپے ملتا ہے۔ اس سے وہ اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں اور اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔

’ہم دن کے ہزار روپے دھاڑی میں اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ ہم اپنے اخراجات کو مد نظر رکھ کرخرچ کرتے ہیں کیونکہ اس مہنگائی کے دور میں دو وقت کی روٹی ملنا غنیمت ہے۔‘

اُن کے مطابق سمندر کے کنارے کھڑی کشتیوں کے بنانے اور ڈیزائن کرنے والے ہم ہیں مگر ہم کشیتاں کبھی نہیں لے سکتے کیونکہ ہم یہ مالکان کے لیے بناتے ہیں اور صرف اپنی مزدوری لیتے ہیں۔

اُن کے مطابق ایک بڑے سائز کے کشتی کا خرچہ ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ ہوجاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم اپنے بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم دلاتے ہیں۔ یہاں غریبوں کو سرکاری ملازمت نہیں ملتی۔ ہمارا کوئی سفارشی نہیں۔

’یہی دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان جتنا پڑھتے ہیں انہیں ملازمت کے لیے اُتنا ہی در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔‘

عبدالغنی کا کہنا ہے کہ شکار قسمت ہے کبھی لگتا ہے کبھی خالی ہاتھ آنا پڑتا ہے۔

’کبھی ہزاروں اور کبھی لاکھوں کا شکار کیا کرتے ہیں، سمندر سے وابستہ افراد کی زندگی یوں ہی چلتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا