طالبان کا غیر روایتی انداز پاکستان کے لیے دردِ سر

پاکستانی حکام کو جب تک ادراک نہیں ہو گا کہ طالبان کی سفارت کاری اور خارجہ پالیسی کا انداز سراسر غیر روایتی ہے، تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔

افغان طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی اور نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی 5 مارچ 2022 کو کابل میں افغان پولیس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں شریک ہیں (تصویر: اے ایف پی)

طالبان کی جانب سے گذشتہ برس افعانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اب تک کے معاملات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طالبان کی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری کی نوعیت روایتی نہیں ہے، وہ اپنے مخصوص انداز سے فیصلے کرتے ہیں اور دوسرے ملکوں سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی اسی انداز سے پیش آیا جائے۔

ہمارے خیال سے شاید پاکستانی حکام کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہو سکا اور اب تک روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔ انہیں جب تک اس کا احساس نہیں ہو گا، اس وقت تک دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اس طریقے سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے جس کی پاکستان کو توقع ہے۔

طالبان کے غیر روایتی انداز کی دو مثالوں سے میری بات واضح ہو جائے گی۔

18 جنوری 2022 کو پاکستانی اور افغان وزرائے تجارت اوردیگر اعلی حکام کے درمیان طورخم سرحد پر پہلے سے طے شدہ اہم اجلاس اچانک منسوخ کر دیا گیا اور اسلام آباد سے وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت اور سرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف طورخم نہ جا سکے۔

پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ ملاقات طالبان حکومت نے منسوخ کی تھی اور اس فیصلے کی وجوہات بھی نہیں بتائی گئی تھیں۔

ایک پاکستانی اہلکار کا دعویٰ ہے کہ افغان وزیر تجارت نورالدین عزیزی اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے جلال آباد میں موجود تھے لیکن انہیں کابل سے رئیس الوزرا ملا حسن کے دفتر سے کہا گیا کہ وہ نہ جائیں۔

پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ طورخم والی ملاقات میں سرحد پر تاجروں اور مسافروں کو مزید سہولتوں مہیا کرنے پر بحث کی جانی تھی اور پاکستان کی جانب سے افغان سرحدی علاقوں میں انفراسٹرکچر اور سڑکوں کی مرمت میں تعاون پر مشورے کرنے تھے۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے جب پاکستانی موقف سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں معلومات حاصل کر رہا ہوں۔‘

یہ طالبان ترجمان کا روایتی جواب ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ اس موضوع پر کچھ نہیں بولنا چاہتے۔

ایک پاکستانی عہدیدار کا خیال ہے کہ ملاقات کی منسوخی افغانستان کی جانب سے کچھ دن پہلے چمن-سپن بولدک سرحد پر پاکستانی اورطالبان فورسز کے درمیان فائرنگ کے واقعے پر طالبان کا رد عمل ہو سکتا ہے۔

طالبان نے فائرنگ کے بعد تین دن تک پاکستان کے ساتھ سرحد بند رکھی تھی۔ پاکستان کا موقف تھا کہ طالبان فورسز نے سرحد پر باڑ کی تعمیر کا راستہ روکا تھا جبکہ طالبان عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پاکستانی فورسز نے ایک افغان بچے پر تشدد کیا تھا۔

آج کل سوشل میڈیا پر افغان طالبان کے حامیوں نے اپنے ایک عہدیدارکی پشتو زبان میں ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے لیے بھیجی گئی امدادی گندم خراب اور استعمال کے قابل نہیں ہے جبکہ ان کے بقول بھارتی گندم اعلیٰ کوالٹی کی ہے۔

پاکستان نے گندم کے معاملے پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا اس کے باوجود کہ اس پر سوشل میڈیا میں افغانوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

طالبان حکومت گندم کا مسئلہ پاکستانی حکام کے ساتھ سفارتی ذرائع سے اٹھا سکتا تھا، لیکن ایک طالبان عہدیدار نے پریس کانفرنس میں اس کا ذکر کرنا مناسب سمجھا اور دیگر طالبان نے اس کی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔

یہ پاکستان کو ایک پیغام ہے کہ غلطیاں ہوں گی توافغان طالبان اپنے انداز سے جواب بھی دیں گے۔ ان کی نظر میں شاید روایتی سفارت کاری کی اہمیت نہیں۔

اگرطالبان حکومت کے ساتھ معمول کے مطابق چلنا ہے تو پاکستانی پالیسی سازوں اور افغانستان کے معاملات پر کنٹرول رکھنے والے اداروں کو احتیاط سے چلنا ہو گا۔

دو واقعات کا ذکر اس لیے کیا تاکہ پاکستان اور طالبان کے درمیان بڑھتے ہوئی بد اعتمادی کی گہری خلیج کی نشاندہی کر سکوں۔ 15 اگست کو کابل پر طالبان کنٹرول کے بعد ميں تین مرتبہ کابل جانے اور کئی طالبان رہنماوں کے ساتھ نشستوں میں گفتگو سے اندازہ لگایا سکتا ہوں کہ واقعی پاکستان اور طالبان کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔

پاکستانی پالیسیوں کا ہر وقت ذکر کیا جاتا ہے خواہ وہ سابق آمر پرویز مشرف کی جانب سے طالبان کی پچھلی حکومت کے گرانے کے لیے امریکہ کو فوجی اڈے دینے کا معاملہ ہو، افغانستان میں 20 سال تک طالبان کے ساتھ لڑنے والے امریکی اور نیٹو فورسزکو سپلائی  کے لیے پاکستان کے زمینی راستے کا  استعال ہو یا طالبان سفیر ملا ضعیف کو پشاور میں امریکی فوجیوں کے حوالے کرنا ہو یا ملا عبدالغنی برادار کو آٹھ سال تک پاکستانی قید میں رکھنا ہو، یہ سب کچھ طالبان کے لیے بھولنا مشکل ہے۔

طالبان شاید ماضی کو بھول بھی جائیں اگرکسی مرحلے پروہ پاکستانی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی محسوس کریں اور بڑی تبدیلی یہ ہو گی کہ پاکستانی پالیسی بنانے والے دل سے افغانستان کو ایک خودمختار اور آزاد ریاست تسلیم کریں اور طالبان حکومت کو اپنے معاملات چلانے دیں۔ پاکستان کو طالبان کا وکیل بننے کی کوئی ضرورت نہیں، کیوں کہ طالبان اسے مداخلت سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان حکومت سے متعلق پاکستانی رہنماؤں کے اکثر بیانات کا افغانستان میں خیرمقدم نہیں ہوتا۔

’ٹی ٹی پی کے معاملے پر طالبان سہولت کاری کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے‘

افغان طالبان کا دعوی ہے کہ پاکستان نے ان کی حکومت بننے کے بعد کم از کم دو مرتبہ مشرقی صوبے کنڑ پر راکٹ داغے ہیں باوجود اس کے کہ طالبان حکومت کی سہولت کاری اور ثالثی نے تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان حکومت کے مذاکرات کے لیے راستہ ہموار کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سہولت کاری ابھی بھی جاری ہے اور اب اس عمل میں وزیرستان کے قبائلی مشران بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی قیدیوں سے متعلق کچھ پیش رفت کی باتیں ہو رہی ہیں اور امکان ہے کہ افغان طالبان کی ثالثی سے افغانستان میں براہ راست مذاکرات کسی بھی وقت شروع ہو سکتے ہیں۔

شاید پاکستان کی افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے معاملے پر بڑی توقعات ہوں لیکن کابل میں ایک طالبان عہدیدار نے بتایا کہ افغان طالبان سہولت کاری علاوہ کچھ اور کر ہی نہیں سکتے۔

پاکستان کو افغان طالبان سے اس معاملے پر مزید کسی چیز کی توقع ہی نہیں رکھنی چاہیے کیوں کہ مسئلہ پاکستانی ریاست اور ٹی ٹی پی کا ہے۔

نوشکی، پنجگور میں بلوچ شدت پسندوں اور کرم قبائلی ضلعے میں سرحدی چوکی پر ٹی ٹی پی کے گذشتہ ماہ کے حملوں کے بعد پاکستان نے بیانات میں افغانستان کی سرزمین استعال ہونے کی بات کی تھی۔ طالبان ان دعووں کی تردید کرتے آ رہے ہیں۔

اگست، ستمبر اور دسمبر میں کابل میں کئی طالبان اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتوں میں اندازہ ہوا کہ سابق صدور حامد کرزئی اور اشرف غنی حکومتوں کے دوران پاکستانی پالیسیوں سے متعلق سوچ اور آج طالبان کی سوچ میں کوئی فرق نہیں۔

پاکستان کے لیے ایک بڑا سفارتی چیلنج یہ بھی ہے کہ عام افغانوں کی سہولت کاری  کے لیے کیے اقدامات کے ذریعے بھی عام لوگوں کے دل نہیں جیت سکا کیوں کہ افغان ہر پاکستانی اقدام کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

حاصل کی گئی معلومات کے مطابق پاکستان نے 15 اگست کے بعد کابل میں پاکستانی سفارتخانے نے کئی لاکھ ویزے جاری کیے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے پاکستان کے راستے دیگر ممالک گئے ہیں لیکن اس کا کوئی بھی افغان  ذکرنہیں کرتا۔

آج اگر اسلام اباد کے کئی سیکٹرز میں دیکھا جائے تو بڑی تعداد میں افغان شہری نظر آئیں گے جن کو مشکل وقت میں پاکستان نے ویزے دے کر افغانستان سے نکلنے کا موقع دیا گیا لیکن اس کے باوجود پاکستان کے لیے افغانوں کے مابین حسن نیت قائم نہیں ہوئی۔

اس کی بڑی وجہ پاکستانی حکومتوں اور اداروں کی افغان پالیسی میں مستقل مزاجی اور تسلسل کا نہ ہونا ہے۔ اکثر افغانوں کا خیال ہے کہ افغانستان  سے متعلق پاکستان کی پالیسیاں ہمیشہ اپنے مفادات کے گرد گھومتی ہیں۔

طالبان کی شاید مجبوری ہو کہ عوامی احساسات سے فائدہ اٹھائے جو پاکستان کے حق میں بالکل بھی نہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ بھی ہے کہ افغان پالیسی بنانے والے اکثر افغانوں کو نہیں جانتے اور نہ وہ اکثر معاملات میں حساسیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

طالبان کا خیال ہے کہ پاکستان نے ان کی حکومت آنے کے بعد افغانوں کے لیے ویزا پالیسی سخت کی ہے جو اشرف غنی کی حکومت کے دوران نرم تھی لیکن اب سخت پالیسی اپنائی ہے۔

تجارت کے معاملات میں افغانوں کو شکایات ہیں۔ پاکستان نے 2010 کے نظرثانی راہداری معاہدے کی مدت گذشتہ سال فروری میں ختم ہونے کے باوجود ابھی تک نیا معاہدہ نہیں کیا۔

سابق افغان حکومت کا موقف تھا کہ نیا معاہدہ بین الاقوامی تجارتی تنظیم یا ڈبلیو ٹی او کے مطابق ہونا چاہیے کیوں کہ اب دونوں اس تنظیم کے ممبران ہیں لیکن پاکستان اس سے متفق نہیں تھا اور پاکستان کا موقف تھا کہ یہ دوطرفہ معاہدہ ہے اورتیسرے فورم کے بجائے دونوں ممالک اختلافات کا حل نکالیں لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا اور اب تو طالبان حکومت کی تسلیم ہونے کے بغیر یہ کام مشکل ہے۔

افغان طالبان پاکستان کے لیے کبھی بھی پاکستانی طالبان کے خلاف کوئی بھی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ مہمانوں سے متعلق طالبان کی پالیسی ملا عمر نے اسامہ بن لادن کی مہمان نوازی کرنے کی مثال چھوڑ دی ہے۔

طالبان اپنے انداز سے پاکستان کے ساتھ معاملات طے کریں گے اور پاکستان کو یہ سمجھنا پڑے گا۔ اشرف غنی کی حکومت کو بھی سرحد پر باڑ لگانے پر اعتراض تھا لیکن باڑ ہٹانے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا لیکن طالبان نے ننگرہار، قندھار اور نیمروز کے کئی علاقوں سے باڑ ہٹائی اور ذبیح اللہ مجاہد سمیت کئی طالبان رہنماؤں نے آن دی ریکارڈ کہا کہ سرحد پر باڑ لگانے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ یہ سرحد نہیں بلکہ ایک عارضی لکیر ہے۔ پاکستان کو اب طالبان سٹائل کی سفارتکاری سے چلنا پڑے گا۔

اکثر طالبان سے سنتا ہوں کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے افغانستان سے متعلق بیانات مناسب نہیں ہوتے جس میں پاکستانی رہنما ایسا تاثر دیتے ہیں کہ وہ طالبان کے نمائندے ہیں۔

اعتماد کے فقدان کے باوجود پاکستان اور طالبان کی ایک دوسرے کو ضرورت ہے۔ پاکستان شاید اس وقت دنیا میں واحد ملک ہے جو طالبان حکومت سے رابطوں پر زور دیتا ہے لیکن طالبان کا اصرار ہے کہ پاکستان ان کی حکومت کو تسلیم کرے۔

ٹی ٹی پی کے مسئلے پر گذشتہ کالم میں لکھا گیا تھا لیکن اس مسئلے پر مختصر یہ کہوں گا کہ یہ مسئلہ پاکستان کا ہے اور افغان طالبان پاکستان کے لیے کبھی بھی پاکستانی طالبان کے خلاف کوئی بھی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ اگر کل افغان طالبان پاکستانی طالبان کے مہمان تھے تو آج پاکستانی طالبان افغان طالبان کے مہمان ہیں اور مہمانوں سے متعلق طالبان کی پالیسی ملا محمد عمر نے اسامہ بن لادن کی مہمان نوازی کرنے کی ایک مثال چھوڑی ہے۔


نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ