طالبان افغانستان کے لیے ’عظیم الشان فوج‘ بنانے میں سرگرم

افغان طالبان کے رینک کلیئرنس کمیشن کے سربراہ لطف اللہ حکیمی نے کہا کہ وہ ملک کی ضروریات اور قومی مفادات کے مطابق ’ایک عظیم الشان فوج تشکیل دیں گے،‘ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فوج کتنی بڑی ہوگی اور اس میں کتنے افراد ہوں گے۔

افغان طالبان کے رینک کلیئرنس کمیشن کے سربراہ لطیف اللہ حکیمی نے بتایا ہے کہ ملک کے لیے ایک ’عظیم فوج‘ تشکیل دی جارہی ہے، جس میں سابق حکومت میں کام کرنے والے افسران اور فوجی دستے بھی شامل ہوں گے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لطیف اللہ حکیمی نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ گذشتہ سال امریکی اور اتحادی فورسز کے انخلا کے دوران ناقابل استعمال قرار دیے گئے 81 ہیلی کاپٹروں اور طیاروں میں سے نصف کی مرمت کر دی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ طالبان فورسز نے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے دوران تین لاکھ سے زیادہ ہلکے ہتھیار، 26 ہزار بھاری ہتھیار اور تقریباً 61 ہزار فوجی گاڑیوں کو اپنے کنٹرول میں لیا تھا۔

افغانستان کی مسلح افواج گذشتہ برس 31 اگست کو امریکی زیرقیادت فوج کے افراتفری میں کیے گئے انخلا اور طالبان کے ملک پر کنٹرول کے دوران بکھر گئی تھیں اور اپنے اڈے چھوڑ کر تمام ہتھیار اور گاڑیاں پیچھے چھوڑ گئی تھیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد طالبان نے اشرف غنی حکومت سے منسلک ہر فرد کے لیے عام معافی کا وعدہ کیا تھا، لیکن افغانستان سے انخلا کرنے والے ایک لاکھ 20 ہزار کے قریب شہریوں میں سے زیادہ تعداد ان ہی لوگوں کی تھی جو سابق حکومت میں اعلیٰ حکومتی اور فوجی عہدوں پر تعینات تھے۔

دوسری جانب سابق حکومت میں اہم عہدوں پر تعینات جو لوگ ملک میں رہ گئے تھے، انہوں نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے بظاہر گمنامی اختیار کرلی۔

اقوام متحدہ نے رواں برس جنوری میں کہا تھا کہ گذشتہ اگست سے لے کر اب تک سابق مسلح افواج سے منسلک 100 سے زیادہ افراد مارے جاچکے ہیں۔

تاہم افغان وزارت داخلہ نے ان رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’امارت اسلامیہ نے عام معافی کے اعلان کے بعد کسی کو نہیں مارا۔ کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں سابقہ فوجی ذاتی دشمنیوں میں مارے گئے ہیں۔ ایسے واقعات کی سخت تحقیق و تفتیش جاری ہے۔‘

بیان میں اقوام متحدہ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا گیا تھا: ’ہمارا مطالبہ ہے کہ مخصوص حلقوں کی معلومات پر انحصار نہ کریں بلکہ زمینی حقائق سے آگاہی حاصل کریں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم طالبان رہنما لطف اللہ حکیمی نے زور دیا ہے کہ طالبان کی جانب سے عام معافی نے اچھا کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عام معافی کا حکم جاری نہ کیا گیا ہوتا تو ہمیں بہت خراب صورت حال دیکھنے کو ملتی۔

انہوں نے مزید کہا: ’جو خودکش حملہ آور کسی شخص کو نشانہ بنانے کے لیے اس کا پیچھا کر رہے تھے، اب وہی خودکش بمبار اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔‘

اس بات کے بہت کم ثبوت ملے ہیں کہ طالبان نے سابق فوجیوں کو اپنی صفوں میں شامل کیا ہے، لیکن گذشتہ ہفتے کے آخر میں انہوں نے افغان نیشنل آرمی کے دو سینیئر افسران کو وزارت دفاع میں اعلیٰ عہدوں پر نامزد کیا، جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ دونوں ملک کے اہم فوجی ہسپتال سے منسلک ماہر سرجن ہیں۔

لطف اللہ حکیمی نے کہا: ’فوج کی تشکیل کے حوالے سے ہمارا کام جاری ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’پائلٹ اور انجینیئرز، لاجسٹک اور سابق حکومت کا انتظامی عملہ سکیورٹی کے شعبے میں اپنے عہدوں پر ہیں۔‘

لطف اللہ حکیمی نے بتایا کہ وہ ملک کی ضروریات اور قومی مفادات کے مطابق ’ایک عظیم الشان فوج تشکیل دیں گے،‘ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فوج کتنی بڑی ہوگی اور اس میں کتنے افراد ہوں گے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ فوج ایسی ہوگی، جس کا ملک متحمل ہو سکتا ہے۔

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور بظاہر یہ ملک دیوالیہ ہو چکا ہے کیوں کہ اس کے سات ارب ڈالر کے بیرون ملک اثاثے امریکہ نے ضبط کر لیے ہیں۔

واشنگٹن نے کہا ہے کہ اس رقم میں سے نصف 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے متاثرین کو معاوضہ دینے کے لیے مختص کی جائے گی اور بقیہ نصف رقم کو آہستہ آہستہ انسانی امدادی فنڈ کے حصے کے طور پر جاری کیا جائے گا۔

لطف اللہ حکیمی نے نیوز کانفرنس کو بتایا کہ طالبان نے اپنی صفوں سے تقریباً چار ہزار 500 ’ناپسندیدہ افراد‘ کو نکال دیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نئے بھرتی کیے گئے افراد تھے، جو اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی صفوں میں شامل ہوئے تھے اور ان پر جرائم کا الزام لگایا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا