افغانستان میں طالبان کا مشہور سنائپربنا شہر کا میئر

گھنی داڑھی اور سیاہ پگڑی طالبان کا آئیڈیل چہرہ ہو سکتا ہے لیکن موافق کئی حوالوں سے ان کے سخت نظریے کی عکاسی نہیں کرتے۔ ان کے دفتر میں خواتین ملازمین کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور شہر میں ایک عوامی باغ ان کے لیے مخصوص ہے۔

افغانستان کے صوبہ فریاب کے شہر میمنہ کے نئے میئر داملا محب اللہ موافق طالبان کی صفوں میں سرفہرست سنائپرز میں سے ایک کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔

موافق کو پچھلے سال نومبر میں شمال مغربی افغانستان کے دور دراز صوبے فریاب کے دارالحکومت میمنہ کا میئر بنایا گیا تھا، اس واقعے سے صرف تین ماہ قبل طالبان نے مغربی حمایت یافتہ حکومت کو معزول کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔

وہ ایک جنگجو کی حیثیت سے مشہور ہوئے لیکن اب ان کے شیڈول میں مقامی حکومت کے روزمرہ کے کام ہوتے ہیں، جیسے کہ سیوریج سسٹم کو کھولنا، سڑکوں کی منصوبہ بندی کرنا اور محلے داروں کے جھگڑے سلجھانا۔

ان کا تبدیل ہونا طالبان کی وسیع تر تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔

25 سالہ نوجوان نے خبر رساں ایجنسی فرانس پریس ( اے ایف پی) کو بتایا کہ جب میں لڑ رہا تھا تو میرے مقاصد بہت مخصوص تھے: غیر ملکی قبضے، امتیازی سلوک اور ناانصافی کو ختم کرنا۔ ‘

اب میرے اہداف بھی واضح ہیں، ’بدعنوانی کے خلاف لڑنا اور ملک کو خوشحال بنانا۔‘

نئے میئر میمنہ کی سڑکوں پر چلتے ہوئے سڑک کنارے گٹر صاف کرنے والے میونسپل کارکنوں سے بات چیت کرتے ہیں۔

ایک لاکھ آبادی والے شہر کے باشندے شکایات کے ساتھ اور تجاویز  بھی پیش کرتے ہیں، جو ایک بڑھتی ہوئی فہرست میں شامل کیے جاتے ہیں۔

ان کے غیر طالبان نائب سید احمد شاہ غیاسی کا کہنا ہے کہ ’نئے میئر نوجوان، تعلیم یافتہ ہیں اور بہت اہم بات یہ ہے کہ ان کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ وہ لوگوں سے نمٹنا جانتے ہیں۔‘

مدرسوں سے تعلیم یافتہ دیہی مردوں کے برعکس موافق کا تعلق دولت مند تاجروں کے ایک خاندان سے ہے اور وہ میمنہ میں پلے بڑھے جہاں انہوں نے سکول اور کھیل میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔

ان کے دفتر کو ان کی جوانی کی یادگاروں سے سجایا گیا ہے جس میں مارشل آرٹ مقابلے کا سرٹیفکیٹ اور ان کا ہائی اسکول ڈپلومہ بھی شامل ہے۔

19 سال کی عمر میں بغاوت میں شمولیت کے بعد انہیں فریاب میں تعینات ایک چھوٹے یونٹ کی کمان دی گئی تھی۔

دوسرے لوگ انہیں طالبان کے سب سے باصلاحیت سنائپرز میں سے ایک قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ جنگی کہانیاں سنانے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔

لیکن اے ایف پی کے ساتھ گھومتے ہوئے وہ  کوشری گاؤں کے قریب ایک گھر کے سامنے ٹھہرے ہے جہاں کبھی ان کے یونٹ کا کنٹرول تھا۔

یہاں وہ چھپتے اور اپنی رائفل سے امریکی فوجیوں کو  نشانہ بناتے تھے، وہ ایک اچھے نشانے باز کے طور پر مشہور تھے۔

ایک مقامی کسان سیف دین نے کہا کہ موافق نے اس گھر سے اپنی رائفل سے ایک امریکی کو قتل کیا، پھر ایک طیارہ آیا جس نے ان پر بم باری کی۔

موافق نے لڑائی میں کئی ساتھیوں کو ہلاک ہوتے دیکھا لیکن انہوں نے جو ہولناکیاں برداشت کیں اس کے بارے میں وہ اب بھی ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ’ میں نے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔‘

گھنی داڑھی اور سیاہ پگڑی طالبان کا آئیڈیل چہرہ ہو سکتا ہے لیکن موافق کئی حوالوں سے ان کے سخت نظریے کی عکاسی نہیں کرتے۔

ملک بھر میں خواتین کو عوامی دائرے سے بے دخل کر دیا گیا ہے اور بڑی عمر کی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں اور بڑی حد تک ان کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

لیکن موافق کے دفتر میں خواتین ملازمین کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے اور شہر میں ایک عوامی باغ ان کے لیے مخصوص ہے۔

ان کے آفس میں 26 سالہ خاتون ہیومن ریسورسز ڈائریکٹر قہیرا موجودہ لباس کے تقاضوں کے مطابق حجاب پہنتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’میمنہ کے میئر کے دفتر میں کوئی بھی ہمیں لباس پہننے کا طریقہ نہیں بتاتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان میں ممکنہ تبدیلیاں

طالبان نے اس بار مسند اقتدار سنبھالنے کے بعد بارہا یہ بات دہرائی ہے کہ وہ اس دفعہ ماضی سے مختلف رویہ رکھیں گے اور عوامی اور معاشی بہتری ان کے اہم اہداف میں سے ہیں۔

اسی سلسلے میں بدھ کو امارت اسلامیہ کابینہ کونسل کا اجلاس ہوا جس میں وزارت شہدا و معذورین نے جان دینے والے اہلکاروں کے لاوارث خاندانوں یا معذوراہلکاروں کی امداد کے لیے تیار کردہ پالیسی منظورکرلی۔

اجلاس میں جنرل ڈائریکٹوریٹ آف ایڈمنسٹریٹو افیئرز کو ذمہ داری سونپی گئی کہ سابقہ انتظامیہ کے حکام کے وہ گھر جو غیر آباد اور خالی پڑے ہیں انہیں مافیا کے قبضوں سے بچانے کے لیے امانتاً تحویل میں لیا جائے۔

 اس کے علاوہ وزارت انفارمیشن و ٹیلی کمیونیکیشن کی جانب سے موبائل سم کی رجسٹریشن اور بائیومیٹرک کرنے کی سفارش منظورکرلی گئی، جس کا مقصد یہ ہے کہ عام عوام کو مسائل نہ ہوں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا