ایمنسٹی لسٹ:کشمیر ہائی کورٹ کونمبر ون پر لانے والے جج کون تھے؟

کشمیر کی شناخت کی بحالی اور وحدت کے داعی رہنے والے جسٹس مجید ملک، جج بننے سے قبل اور بعد میں سیاست میں کافی متحرک رہے۔انہیں گلگت بلتستان سے متعلق فیصلے پر کافی شہرت ملی۔

(دائیں سے بائیں) جسٹس (ر) عبدالمجید ملک، وید بھسین اور کامریڈ کرشن دیو سیٹھی 2012 میں میرپور کے دورے کے دوران۔ تینوں شخصیات کشمیر کی تاریخی حثیت اور شناخت کی بحالی کی قائل تھیں۔ (فوٹو بشکریہ: خواجہ عبدالحمید)

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق مقدمہ جب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ میں دائر اور سماعت کے لیے مقرر ہوا تو بے نظیر بھٹو کی حکومت اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا، تاہم 8 مارچ 1993 کے روز جب جسٹس مجید ملک کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اس خطے کا انتظامی کنٹرول پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو واپس کرنے کا فیصلہ سنایا تو ایک ہل چل مچ گئی۔

اگرچہ اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سپریم کورٹ نے اسے تکنیکی بنیادوں پر معطل کر دیا، تاہم اس فیصلے نے کشمیر اور گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور ریاست پاکستان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کے بارے میں ایک نئی بحث کو جنم دیا، جو آج تک جاری ہے۔

آج جب اس تاریخی فیصلے کو 29 سال مکمل ہوئے ہیں تو یہ فیصلہ سنانے والے جسٹس مجید ملک گذشتہ دنوں میرپور میں انتقال کرگئے۔ کئی سالوں تک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے والے جسٹس (ریٹائرڈ) عبدالمجید ملک یکم مارچ کو 89 سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔

ان کی نماز جنازہ میرپور کے قائداعظم سٹیڈیم میں ادا کی گئی اور تدفین میرپور شہر کے سیکٹر بی ٹو میں ان کے خاندانی قبرستان میں ہوئی۔

خاندانی ذرائع کے مطابق وہ انتقال سے دو ہفتے قبل سے کرونا (کورونا) سمیت چند دیگر بیماریوں میں مبتلا تھے اور انتقال سے ایک روز قبل انہیں ہسپتال سے واپس گھر منتقل کیا گیا تھا۔

ان کے پسماندگان میں تین بیٹے اور چھ بیٹیاں شامل ہیں۔ ان کے ایک صاحبزادے شوکت مجید ملک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیکرٹری کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر فیصلہ

جسٹس مجید ملک 1974 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اپنے کیریئر کے دوران جسٹس ملک نے کشمیر کی سیاسی و تاریخی نوعیت اور اہمیت سے متعلق فیصلوں سمیت متعدد اہم مقدمات کے فیصلے کیے، تاہم انہیں سب سے زیادہ شہرت اس فیصلے پر ملی جس میں انہوں نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین کیا۔

گلگت بلتستان کے علاقے تانگیر کے رہائشی محمد مسکین، جو بعد میں گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر بھی رہے، کی مدعیت میں دائر اس مقدمے میں گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت اور اس کے تنازعہ کشمیر کے ساتھ تعلق پر جس انداز سے کھل کر بحث ہوئی، وہ اس سے قبل یا اس کے بعد کبھی نہیں ہو سکی۔

تاریخی نوعیت کے اس مقدمے میں گلگت بلتستان سے متعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کا موقف بھی کھل کر سامنے آیا اور عدالت نے اسے اپنے فیصلے میں شامل کرکے ریکارڈ کا حصہ بنایا۔

یہ مقدمہ سننے والے بینچ میں چیف جسٹس مجید ملک کے علاوہ جسٹس خواجہ سعید اور جسٹس ریاض اختر چوہدری بھی شامل تھے۔

طویل سماعت کے بعد جسٹس ملک نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ حکومت پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی عبوری ’انقلابی‘ حکومت کے درمیان 28 اپریل 1949 کو ہونے والا معاہدہ کراچی ایک ’عارضی‘ انتظام تھا اور اب یہ ’غیر موثر‘ ہو چکا ہے۔

گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہے اور حکومت پاکستان اسے تسلیم کرتے ہوئے اس کا انتظامی کنٹرول پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو واپس کر دے۔

فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کو جدا کرنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل 30 مارچ 1951 اور 24 جنوری 1957 کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔

اسی کی نگرانی میں ریاست جموں وکشمیر میں آزادانہ، شفاف اور جمہوری انداز میں ریفرنڈم کے ذریعے ریاست کی حیثیت کا تعین نہیں ہو جاتا، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا عبوری آئین ایکٹ 1974 گلگت بلتستان پر نافذ اور حاوی رہے گا۔

اس فیصلے میں عدالت نے گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کا قانون اصل شکل میں بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت کو پابند کیا کہ وہ حکومت پاکستان سے گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول حاصل کرتے ہوئے اپنا انتظامی دائرہ ان علاقوں تک بڑھائے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اسمبلی اور عدلیہ میں نمائندگی کے علاوہ وہاں کے شہریوں کو ملازمتوں میں کوٹے سمیت وہ تمام حقوق دیے جائیں، جو عبوری آئین کے تحت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہریوں کو حاصل ہیں۔

حال ہی میں شائع ہونی والی جسٹس مجید ملک کی خود نوشت میں انہوں نے لکھا کہ 8 مارچ 1993 کو جب یہ فیصلہ سامنے آیا تو پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں میں بھونچال سا آ گیا۔ قومی و بین الاقومی میڈیا نے اس فیصلے کی بھرپور تشہیر کی اور عالمی سطح پر کشمیر کی شناخت بنی۔

اسی سال ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انسانی حقوق اور شخصی آزادی کی بحالی کے حوالے سے مرتب کردہ اپنی فہرست میں پاکستان کے زیر انتظام کشیر کی ہائی کورٹ کو پہلے نمبر پر رکھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس ملک نے اپنی کتاب میں مزید لکھا کہ اس فیصلے پر پاکستان کی اس وقت کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو سخت غصے میں تھیں اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ انہیں باور کروا رہی تھی کی اب گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ بےنظیر بھٹو نے اپنے وزیر قانون اقبال حیدر کو حکم دیا کہ جیسے بھی ہو اس فیصلے کو منسوخ کروایا جائے۔

نتیجتاً پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں نے اس فیصلے کے خلاف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر دیں۔ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے مندرجات سے تو کوئی اختلاف نہیں کیا، تاہم اس بنا پر یہ فیصلہ منسوخ کر دیا گیا کہ گلگت بلتستان سے متعلق کوئی بھی مقدمہ سننے کا اختیار پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو حاصل نہیں۔

ریاست کی وحدت کا پرچار

ہائی کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس ملک دوبارہ سے سیاست میں سرگرم ہوگئے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق صدر خورشید الحسن خورشید (کے ایچ خورشید) کی جماعت لبریشن لیگ میں شامل ہوئے اور اس کے سربراہ بن گئے۔ یہ جماعت ریاست جموں کشمیر کی شناخت کی بحالی اور وحدت کی داعی ہے اور کشمیر کی کسی بھی طرح سے تقسیم کے خلاف ہے۔

خود جسٹس ملک نے بھی اپنی ساری زندگی اسی مقصد کے لیے وقف رکھی۔ وہ پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے فیصلے کے سخت ناقد رہے اور اسے پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے 5 اگست 2019 کے اقدام کی توثیق کے مترادف قرار دیتے تھے۔

جسٹس ملک نے ’جموں و کشمیر انٹیلیکچوئل فورم‘ کے نام سے ایک تھنک ٹینک قائم کیا اور اس کے پلیٹ فارم سے تنازعہ کشمیر کی مختلف جہتوں پر تحقیق و تحریر اور مباحثے میں مصروف رہے۔ انہوں نے بھارت، بھارت کے زیر انتطام کشمیر سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کشمیر پر ہونے والے مباحثوں اور کانفرنسوں میں شرکت کی۔

ابتدائی زندگی

حال ہی میں شائع ہونے والی ان کی خود نوشت کے مطابق جسٹس مجید ملک کی پیدائش 16 ستمبر 1932 کو پرانے ڈوڈیال شہر میں ہوئی۔ یہ علاقہ اب منگلا ڈیم کے نیچے آ گیا ہے۔

ابتدائی تعلیم ڈوڈیال اور میرپور کے علاوہ راولپنڈی کے مشہور گورڈن کالج سے میں حاصل کرنے کے بعد وہ کچھ عرصہ ڈوڈیال کے سرکاری سکول میں معلم بھی رہے اور بعد ازاں لاہور منتقل ہوئے جہاں انہوں نے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

مجید ملک زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست میں سرگرم رہے اور جموں کشمیر سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل رہے۔ 1956 میں لاہور سے وکالت کا باقاعدہ آغاز کیا اور پھر میرپور منتقل ہوگئے۔

منگلا ڈیم کی تعمیر شروع ہوئی تو ان کا آبائی مکان زیر آب آ گیا۔ تب مجید ملک کا خاندان نئے آباد ہونے والے میرپور شہر میں منتقل ہوا اور آج تک وہیں آباد ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ