سینسر بورڈ نے فلم ’آئی وِل میٹ یو دیئر‘ کو بھی روک دیا

مرکزی سینسر بورڈ کی جانب سے لکھے گئے خط کے مطابق یہ فلم پاکستانی ثقافت کی درست عکاسی نہیں کرتی، یہ پاکستان کی ثقافت اور اقدار کے خلاف ہے، اور یہ مسلمانوں کی منفی منظر کشی کرتی ہے۔

فلم کی ہدایت کار ارم پروین بلال کا کہنا ہے کہ ’یہ فلم ایک مسلمان نے بنائی ہے، اس پر پیسے مسلمانوں نے لگائے ہیں، اور یہ امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے تناظر میں بنائی گئی ہے۔‘(تصویر: آئی ول میٹ یو دیئر۔بسمل/ فیس بک پیج)

ہدایت کار ارم پروین بلال کی فلم ’آئی ول میٹ یو دیئر‘ کو مرکزی سینسر بورڈ نے نمائش کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

پاکستان کے مرکزی سینسر بورڈ نے ہدایت کار ارم پروین بلال کی فلم ’آئی ول میٹ یو دیئر‘ کو سینیما میں نمائش کے لیے سینسر سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کردیا ہے، اگرچہ اس فلم کو سندھ سینسر بورڈ نمائش کی اجازت دے چکا تھا۔

مرکزی سینسر بورڈ کی جانب سے لکھے گئے خط کے مطابق یہ فلم پاکستانی ثقافت کی درست عکاسی نہیں کرتی، یہ پاکستان کی ثقافت اور اقدار کے خلاف ہے، اور یہ مسلمانوں کی منفی منظر کشی کرتی ہے۔

سینٹرل بورڈ آف فلم سینسرز کے چئیرمین ارشد منیر نے انڈیپینڈنٹ کو بتایا کہ ’اس فلم کو پہلے سینسر بورڈ نے مسترد کیا، پھر فُل بورڈ ریویو میں بھی تمام ارکان کی رائے تھی کہ یہ فلم پاکستان میں نمائش کے لیے مناسب نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس فلم میں کچھ قابل اعتراض مناظر ہیں جو پاکستانی معاشرے کی اقدار سے موافقت نہیں رکھتے۔ اس فلم میں بوس و کنار کے متعدد مناظر ہیں، گلے لگنے اور کچھ انتہائی قربت کے بھی کئی مناظر ہیں۔ اب یہ پاکستان سے باہر رہنے والے خاندان کی کہانی ہے لیکن ایسی فلم کا ہمارے معاشرے میں چلنا مناسب نہیں۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ جب دنیا بھر میں سینسر بورڈ ختم کرکے ریٹنگ کا نظام رائج ہو رہا ہے اور حال ہی میں متحدہ عرب امارات نے بھی سینسر کی جگہ ریٹنگ شروع کردی ہے تو ایسی میں پاکستان میں فلم پر پابندی کے کیا معنٰی ہیں۔

اس پر چئیرمین سینسر بورڈ کا کہنا تھا کہ ’اگر فلم سوشل میڈیا پر چلتی ہے تو وہ ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتا، لیکن اگر سینسر بورڈ اس کی سینیما میں نمائش کی اجازت دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کی یہ فلم پاکستانی اقدار کے مطابق نمائش کے قابل ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے ہم انہی اقدارکے تحت چل رہے ہیں۔ ایسے میں ہم یکدم سینسر چھوڑ کر ریٹنگ کی جانب نہیں جاسکتے، ہاں البتہ آہستہ آہستہ اس جانب بڑھ سکتے ہیں۔‘

چیئرمین سینسر بورڈ ارشد منیر نے بتایا کہ ’اب اس فلم کے بنانے والوں کے پاس اپیل کا اختیار ہے جو وزارتِ اطلاعات کی اپلیٹ کمیٹی کرتی ہے اور اس میں سینسر بورڈ کے نمائندے نہیں ہوتے بلکہ سول سوسائٹی کے اراکین، سرکاری افسران ہوتے ہیں اور وہ اس کے حق میں یا خلاف فیصلہ کرسکتے ہیں۔‘

یاد رہے کہ اس سے قبل ہدایت کار شعیب منصور کی فلم ’ورنہ‘ کو بھی پہلے سینسر بورڈ نے سند دینے سے انکار کردیا تھا پھر فُل بورڈ میں بھی اپیل مسترد ہوگئی تھی، البتہ اپلیٹ کمیٹی نے فلم پرعائد اعتراضات مسترد کر کے اسے نمائش کی اجازت دے دی تھی۔

اس فلم کی ہدایت کار ارم پروین بلال کا کہنا ہے کہ ’یہ فلم ایک مسلمان نے بنائی ہے، اس پر پیسے مسلمانوں نے لگائے ہیں، اور یہ امریکہ میں 11 ستمبر کے حملوں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے تناظر میں بنائی گئی ہے۔‘

انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ جو فلم میں نے مسلمانوں کی درست عکاسی اور منفی تاثر ختم کے لیے بنائی تھی اسے کس طرح سے مسلمانوں کے خلاف قرار دیا جاسکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ وہ مختلف کہانیاں دکھاناچاہتی ہیں، اور اس فلم کی تو امریکہ اور برطانیہ میں نمائس ہوئی ہے اور اسے وہاں کی تمام مسلم برادری نے بہت زیادہ سراہا ہے اور ہالی وڈ میں تو کچھ لوگوں نے اسے مسلمانوں کے حق میں بنائی گئی فلم قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر سینسر بورڈ کو کچھ مناظر پر اعتراض تھا تو وہ انہیں کاٹ دیتے ہمارا تین چار ہفتے کا وقت ضائع کیوں کیا۔ پہلے سینسر نے دیکھی، پھر فُل بورڈ میں تقریباً تین ہفتے لگا دیے، چار مارچ کو لکھا گیا خط نو مارچ کو ملا ہے، دیکھا جائے تو یہ کسی بھی فنکار کی تذلیل کرنے کے برابر ہے۔‘

’اگر سینسر کو کچھ بھی کاٹنا تھا تو بتا دیتے ہم کردیتے، مگر فلم پر ہی پابندی لگا دی۔‘

ارم پروین بلال نے کہا کہ ’سندھ سینسر بورڈ نے تو اس فلم کو بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے نمائش کا سرٹیفیکیٹ دے دیا تھا، مگر اسلام آباد میں نہ جانے کیا ہوا، جبکہ پنجاب میں یہ فلم سینسر کے لیے پیش ہی نہیں کہ جا سکتی تھی کیونکہ وفاق میں بہت زیادہ وقت لگ گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ کوئی مزید اپیل اس وقت نہیں کرنا چاتی ہیں، کیونکہ نہ ملک کے حالات ٹھیک ہیں اور نہ ہی کوئی استحکام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے عوام یہ فلم کسی نہ کسی ذریعے سے دیکھ ہی لیں گے، کیونکہ آج کے دور میں سینسر کرنا ممکن ہی نہیں۔‘

یاد رہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد فلم سینسر صوبائی معاملہ ہے مگر تمام صوبے پھر بھی وفاق کے پابند ہوتے ہیں۔

سندھ، پنجاب اور وفاق میں سینسر بورڈ قائم ہیں، جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا نے اپنے سینسر بورڈ بنانے کی جگہ وفاق کی تقلید کا راستہ اختیار کیا ہے۔

ہدایت کار ارم پروین بلال کی یہ فلم کرونا کی عالمی وبا سے کچھ پہلے عالمی فیسٹیول کے لیے بھی منتخب ہوئی تھی۔

’ آئی ویل میٹ یو دیئر‘ تین نسلوں پر محیط امریکن پاکستانی خاندان کی کہانی ہے۔ اس خاندان کی ایک لڑکی دعا ڈانسر بننا چاہتی ہے مگر اسے اس سلسلے میں شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، دوسری جانب ایک مسلمان پولیس والا اپنے والد کی مسجد میں سادہ لباس میں (انڈر کوور) گھستا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم