اسلام آباد ہائی كورٹ كے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ جبری گمشدگیوں سے متعلق بننے والا كمیشن 11 سال میں سفارشات دینے میں ناكام رہا ہے، جبكہ اس كا كام ہی ایسے واقعات كی روک تھام كے لیے تجاویز پیش كرنا تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی كورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے جمعے کو جبری گمشدگیوں سے متعلق درخواستوں كی سماعت کی جن میں لاپتہ بلاگر مدثر نارو كا كیس بھی شامل ہے۔
عدالت نے جبری گمشدگی سے متعلق جسٹس (ر) كمال منصور عالم کمیشن کی رپورٹ وفاقی وزارت داخلہ سے حاصل كر كے لاپتہ افراد کے وکلا كے حوالے كرنے اور عدالت میں جمع كرانے كا حكم دیا جبکہ سینیئر وكیل فیصل صدیقی كو لاپتہ افراد كے كیس میں عدالت كا معاون بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔
سماعت كے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریماركس دیے کہ ’کیوں نا عدالت قرار دے کہ جبری گمشدگیوں کا کمیشن اپنے قیام کے مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہا ہے؟‘
انہوں نے كہا كہ ’کمیشن کا بنیادی کام جبری گمشدگیوں كو روكنے كے لیے تجاویز دینا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’11 سال ہو گئے اور آپ نے آج تک اس کو روکنے کی تجاویز ہی پیش نہیں کیں۔‘
عدالت میں موجود جبری گمشدگی كمیشن كے حكام نے عدالت كو بتایا كہ ’ساڑھے پانچ سو کیسز میں پروڈکشن آرڈرز جاری کیے جا چكے ہیں۔‘
جس پر چیف جسٹس كا كہنا تھا كہ ’پروڈکشن آرڈر تو انہی کیسز میں جاری کیا گیا ہو گا جن میں آپ کو شک تھا کہ وہ جبری گمشدگی کا کیس ہے۔‘
انہوں نے جبری گمشدگی كمیشن كے حكام كو مخاطب كرتے ہوئے كہا کہ ’آپ نے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرانا تھا اور اسی حوالے سے تجاویز بھی پیش کرنا تھیں، جو آپ نہیں كر سكے ہیں۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا كہ ’اگر کچھ کیسز میں بازیابی ہوئی ہے تو پھر گمشدگیوں کا ذمہ دار کون تھا؟ اور جن جبری گمشدگیوں کے کیسز کو نمٹایا گیا وہ كن بنیادوں پر نمٹائے گئے؟ ‘
جبری گمشدگی کمیشن كے حكام نے وضاحت پیش كرتے ہوئے كہا كہ ’اگر کوئی ٹریس ہو جائے، اغوا برائے تاوان کا معاملہ ہو یا ایڈریس غلط ہو تو وہ کیس نمٹا دیا جاتا ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے كہا كہ ’کمیشن کا کام تو جبری گمشدگیوں کو روکنا تھا، آپ اس بات پر خود بولتے ہیں کہ اتنے کیسز نمٹا دیے، جبكہ اصل مقصد کسی کو ذمہ دار ٹھہرانا تھا تاکہ آئندہ کوئی ایسا نہ کرے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حكم دیا كہ وزارت داخلہ سے کمال منصور عالم کے کمیشن کی رپورٹ حاصل كر كے عدالت میں جمع کرائی جائے۔
عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل آف پاكستان قاسم ودود نے كہا كہ وہ مذكورہ رپورٹ وفاقی وزارت داخلہ سے حاصل كرنے كی كوشش کر رہے ہیں۔
سماعت كی ابتدا میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جبری گمشدگیوں کے کمیشن کے ٹی او آرز اور جبری گمشدگیوں سے متعلق جسٹس (ر) كمال منصور عالم کمیشن كی رپورٹ كے متعلق دریافت كیا۔
جبری گمشدگی حكام نے عدالت كو بتایا كہ رپورٹ وفاقی وزارت داخلہ کے پاس ہو گی، تاہم انہوں نے كہا كہ رپورٹ پبلک بھی نہیں ہوئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے عدالت میں جبری گمشدگیوں کے کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سنائے، جس میں انہوں نے كہا كہ ’کمیشن کا کام ہے کہ جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار کا تعین کرے۔‘
جبری گمشدگی حكام نے اس موقعے پر كہا كہ ’جو لوگ ٹریس ہو کر حراستی مرکز میں آتے ہیں، انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ انہیں کس نے اٹھایا تھا۔‘
اس موقعے پر چیف جسٹس نے دریافت كیا كہ ’كیا كبھی کسی شخص کے خلاف نام سے کبھی کوئی ایف آئی آر درج کرائی گئی؟‘
انہوں نے كہا كہ ’سال 2011 سے کمیشن بیٹھا ہوا ہے اور ابھی تک کوئی سفارشات نہیں دیں۔‘
مقدمات كی کارروائی یكم اپریل تک ملتوی كر دی گئی۔
ایڈوکیٹ راجہ مشتاق اپنے دو بیٹوں کی بازیابی کے لیے دائر درخواست سے متعلق اسلام آباد ہائی كورٹ میں پیش ہوئے۔
انہوں نے عدالت كو بتایا كہ ان كے بیٹوں فیصل مشتاق اور قاسم مشتاق كو 16 فروری 2016 کو اسلامک یونیورسٹی كے مركزی گیٹ کے باہر سے باوردی افراد نے اٹھایا تھا۔
انہوں نے كہا كہ ’فیصل مشتاق اسلامک یونیورسٹی کے طالب علم، اور قاسم مشتاق تعلیم حاصل كرنے کے ساتھ ملازمت بھی كرتے تھے۔‘
ایڈوكیٹ راجہ مشتاق نے كہا كہ ’جبری گمشدگیوں کے کمیشن نے دسمبر 2017 میں ان كے بیٹوں كے پروڈکشن آرڈرز جاری کئے، لیكن اس کے بعد ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔‘