بھارت: دلہن کی خواہش پر خاتون ’نکاح خوان‘ نے نکاح پڑھایا

بھارتی خبر رساں ایجنسی نے لکھا ہے کہ ’نکاح کی تقریب میں قاضی نکاح ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے رشتہ ازدواج کے حوالے سے فریقین کی رضامندی سے باقاعدہ خطبہ نکاح پڑھ کر دولہا دلہن کے مابین ایجاب و قبول کی رسم انجام دی۔‘

بھارتی دارالحکومت دہلی میں ایک غیر روایتی شادی انجام پائی ہے جس میں نکاح خواں کے فرائض ایک خاتون نے انجام دیے ہیں۔

جمعے کو بھارت کے سابق صدر مرحوم ڈاکٹر ذاکر حسین کے مکان پر منعقدہ اس شادی کی تقریب میں قاضی کے فرائض بھارتی خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی معروف سماجی کارکن اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے انجام دیے۔

انہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین کے پرنواسے جبران ریحان رحمان ولد یوسف ریحان رحمان کا نکاح سینیئر صحافی قربان علی کی بیٹی ارسلہ علی سے پڑھایا۔

بھارتی خبر رساں ایجنسی یونائیٹڈ نیوز آف انڈیا (یو این آئی) نے ڈاکٹر ذاکر حسین کے مکان ’سیدین منزل‘ سے جاری ہونے والے ایک پریس بیان کے حوالے سے لکھا ہے کہ شادی کی تقریب میں خاندان کے قریبی رشتہ داروں اور احباب نے شرکت کی۔

’اس نکاح کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے قاضی کی حیثیت سے خطبہ نکاح پڑھایا اور عقد نکاح کی دیگر رسومات انجام دیں۔ نکاح کے لیے شرائط وکوائف کو خواتین کی مشہور تنظیم ‘مسلم ویمنز فورم’ کے ذریعہ تیار کیا گیا تھا جس کی بانی صدر دولہے جبران ریحان کی دادی بیگم سیدہ خورشید ہیں۔‘

’اس شادی کو اس لحاظ سے اہم تصور کیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں نکاح کے لوازم مہر، گواہ اور قاضی کے علاوہ ایک اقرار نامہ بھی شامل کیا گیا ہے جس پر دونوں فریقین نے اتفاق کیا ہے۔ اس اقرار نامہ میں مساوی حقوق اور ذمہ داریوں اور عائلی زندگی کے دیگر امور سے متعلق متفقہ شرطوں کا ذکر ہے۔‘

بھارتی خبر رساں ایجنسی نے لکھا ہے کہ ’نکاح کی تقریب میں قاضی نکاح ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے رشتہ ازدواج کے حوالے سے فریقین کی رضامندی سے باقاعدہ خطبہ نکاح پڑھ کر دولہا دلہن کے مابین ایجاب و قبول کی رسم انجام دی۔‘

’اس موقع پر انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر ’ترجمان القرآن‘ سے سورہ احزاب کی 33 تا 35 ویں آیات کی تفسیر و تشریح بھی سنائی اور دولہا و دلہن کو خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے نیک دعائیں دیں۔‘

دلہن ارسلہ علی کے والد قربان علی کی طرف سے انڈپینڈنٹ اردو کو بھیجی گئی نکاح خوانی کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید تقریب کا آغاز سورہ حمد کی تشریح سے کرتی ہیں۔

ایجاب و قبول کے عمل کی انجام دہی کے لیے وہ کھڑی ہو جاتی ہیں اور ارسلہ علی سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں: ’آپ کو جبران ریحان رحمان سے بعوض ایک لاکھ روپے مہر معجل اپنے والدین کے سائے میں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت میں یہ نکاح قبول ہے۔‘

سیدہ سیدین حمید دولہا دلہن سے تین بار ’قبول ہے‘ کہلوانے کے بعد نکاح نامہ اور اقرار نامے پر ان کے (دولہا دلہن کے) اور وہاں موجود گواہوں کے دستخط لیتی ہیں۔

’نکاح پڑھانا اپنا فرض سمجھتی ہوں‘

1943 میں جموں و کشمیر میں جنم لینے والی ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید بھارت کے معروف ماہر تعلیم اور مصنف مرحوم خواجہ غلام السیدین کی بیٹی ہیں۔

وہ بھارت میں منصوبہ بندی کمیشن کی رکن اور حیدرآباد دکن کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر کے عہدے پر تعینات رہ چکی ہیں۔ وہ کئی کتابوں کی مصنف ہیں۔

ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ مسلمان جوڑوں کا نکاح پڑھانا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔

’میں جانتی ہوں کہ جتنی آزادی اسلام عورتوں کو دیتا ہے اتنی آزادی کوئی اور مذہب نہیں دیتا۔ لہٰذا اس تناظر میں مسلمان جوڑوں کا نکاح پڑھانا میں اپنا فرض سمجھتی ہوں۔‘

’ہم سب پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اسلام پر عورت مخالف ہونے کے الزام کو غلط ثابت کریں۔ یہی وہ مذہب ہے جس نے آج سے زائد از 14 صدی قبل عورتوں کو جائیداد کا حق دیا۔ اس کو دیکھیں تو اسلام عورت مخالف کیسے ہو سکتا ہے؟‘

’ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اسلام کی صحیح تعلیمات کو اجاگر کریں۔ میں مذہبی کتابوں کا مطالعہ کرتی رہتی ہوں۔ میں نے مولانا آزاد کی تفسیر ’ترجمان القرآن‘ پر کتابیں لکھی ہیں۔‘

ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید نے بتایا کہ انہوں نے اب تک کئی مسلمان جوڑوں کا نکاح پڑھایا ہے۔

’میں نے اگست 2008 میں مسلمان جوڑوں کا نکاح پڑھانا شروع کیا۔ تب میں نے اتر پردیش کے شہر لکھنؤ میں دو سماجی کارکنوں عمران علی اور نائش حسن کو رشتہ ازواج میں منسلک کیا تھا۔ اُس شادی میں مہمان کم اور میڈیا والے زیادہ تھے۔‘

’یہ میری فل ٹائم جاب نہیں ہے۔ میں نے جتنے بھی جوڑوں کا نکاح پڑھایا وہ کسی نہ کسی کے اصرار پر ہی پڑھایا ہے۔‘

’بھارت ہی میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں نکاح ہوتے ہیں۔ اگر دس بارہ نکاح عورتوں نے پڑھائے تو مولویوں اور قاضیوں کی روزی روٹی متاثر نہیں ہو گی۔‘

’ایک خوش آئند اقدام‘

قربان علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ جو کام بہت پہلے ہونا چاہیے تھا اب ہو رہا ہے۔

’اس کو ایک خوش آئند اقدام سمجھا جانا چاہیے۔ ہم مساوات کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کے حقوق برابر ہیں لیکن کہاں برابر ہیں؟ یہ قانون کیوں بنا رکھا ہے کہ صرف مرد ہی نکاح پڑھا سکتا ہے عورت نہیں۔‘

’نکاح کوئی مذہبی رسم نہیں ہے بلکہ ایک قانونی معاہدہ ہے۔ آپ قرآن کی کچھ آیتیں پڑھنا چاہیں تو کوئی آپ کو روکے گا نہیں۔‘

قربان علی نے اس شادی پر کیے جانے والے منفی تبصروں کے بارے میں کہا: ’میری تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ یہاں تو سر سید احمد خاں پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا۔‘

قربان علی نے کہا کہ ان کی بیٹی کی خواہش تھی کہ ان کا نکاح ڈاکٹر سیدہ سیدین حمید پڑھائیں۔

’میں اور ڈاکٹر صاحبہ ایک ساتھ سماجی کام کرتے آئے ہیں۔ وہ ایک بہت پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ پیشہ ورانہ طریقے سے انہوں نے سبھی دستاویز بشمول نکاح نامہ اور اقرار نامہ تیار کیے۔ بنیادی طور پر یہی ہونا چاہیے۔‘

’نکاح خوانی کی تقریب میں 40 سے 50 لوگ اکٹھا ہوئے۔ شادی سے متعلق دیگر تقریبات کا سلسلہ جاری ہے۔‘

قربان علی نے بتایا کہ ان کی بیٹی ایک صحافی تھیں اور انڈیا ٹو ڈے سمیت کئی میڈیا اداروں میں کام کر چکی ہیں۔

’فی الوقت وہ ورلڈ بنک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کے شوہر سپورٹس منیجمنٹ کا کام کرتے ہیں۔‘

دولہا دلہن کے مسلک کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا: ’میں نہیں جانتا میرا، میرے داماد اور میری بیٹی کا مسلک کیا ہے۔ میں اس میں نہیں پڑتا۔ جو لا الہ الا اللّہ محمد رسول اللّه پڑھے وہ مسلمان ہے۔‘

علما کیا کہتے ہیں؟

دہلی کی تاریخی فتح پوری مسجد کے شاہی امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد نقشبندی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’خاتون قاضی نے اگر بالغ لڑکا اور بالغ لڑکی کے درمیان گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کروایا ہے تو نکاح درست ہے۔‘

کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’نکاح ایک بالغ لڑکے اور ایک بالغ لڑکی کے درمیان ایجاب و قبول کا نام ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس میں کسی مولوی یا قاضی کا کردار نہیں ہے۔ اگر ان کا کوئی کردار نہیں ہے تو مرد یا عورت قاضی کے ہونے کی بات کہاں سے آتی ہے؟ بس ایجاب و قبول دو گواہوں کی موجودگی میں ہو۔

’مولوی اور قاضی صرف دونوں کے حق میں دعا کرتا ہے۔ یا میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ یہ مولویوں اور قاضیوں کے روزی روٹی کا ایک ذریعہ ہے۔‘

معروف اسلامی سکالر و مصنف مولانا ایم ایس رحمان شمس نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مفتی مکرم احمد نقشبندی اور مفتی اعظم مفتی ناصر الاسلام سے اتفاق کرتے ہوئے کہا: ’اگر نکاح خوانی کا فریضہ کوئی خاتون انجام دیتی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

’اس کی شریعت اسلامی کے اندر گنجائش ہے۔ ہاں یہ امت کے طریقہ کار کے خلاف تو ہے لیکن نکاح کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔‘

’فقہا نے یہاں تک لکھا ہے کہ اگر ایجاب و قبول کا فریضہ کوئی غیر مسلم بھی انجام دیں تب بھی نکاح ہو جاتا ہے۔‘

’لیکن سنت، شریعت اور استحباب کی بات کریں تو نکاح کا ایک طریقہ ہے۔ پیغمبر اسلام نے اس کو عملاً کر کے دکھایا ہے۔ اس میں قاضی یا نکاح خواں ایک ایسا مسلمان ہو جو نکاح کا خطبہ پڑھیں، اس کی اہمیت و فضیلت پر روشنی ڈالیں اور زوجہ کے حقوق پر بات کریں تو زیادہ مناسب اور بہتر ہے۔‘

تاہم اتر پردیش میں واقع مسلمانوں کے ایک مذہبی ادارے ’دارالعلوم دیوبند‘ نے اپنے ایک فتوے میں کہا ہے کہ ایک عورت کا قاضی یا جج بننا جائز نہیں ہے۔

’دارالعلوم دیوبند‘ کی ویب سائٹ کے مطابق ایک شخص نے مذکورہ ادارے کو ایک سوال بھیجا تھا جو کچھ یوں تھا: ’عورت قاضی یا جج بن سکتی ہے؟‘

اس کے جواب میں ’دارالعلوم دیوبند‘ نے یہ فتویٰ جاری کیا ہے: ’ایسے تمام مناصب جن میں ہرکس و ناکس کے ساتھ اختلاط اور میل جول کی ضرورت پیش آتی ہے، شریعت اسلامی نے ان کی ذمہ داری مردوں پر عائد کی ہے، اور عورتوں کو اس سے سبکدوش رکھا ہے۔

’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم کے زمانے میں بڑی فاضل خواتین موجود تھیں، مگر کبھی کسی خاتون کو جج اور قاضی بننے کی زحمت نہیں دی گئی، چنانچہ اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ عورت کو قاضی اور جج بنانا جائز نہیں، ائمہ ثلاثہ کے نزدیک تو کسی معاملے میں اس کا فیصلہ نافذ ہی نہیں ہوگا، امام ابوحنیفہ کے نزدیک حدود و قصاص کے ماسوا میں اس کا فیصلہ نافذ ہوجائے گا، مگر اس کو قاضی بنانا گناہ ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا