مردان: حکام کا ’بغیر کسی دباؤ کے‘ خواتین کے کھیل جاری رکھنے کا فیصلہ

مردان کے سرکاری حکام نے سپورٹس کمپلیکس میں جاری سپورٹس فیسٹول پر اعتراض کے بعد خواتین کھلاڑیوں پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور ادھوری رہ جانے والی کھیلوں کی سرگرمیاں دوبارہ اسی میدان میں شروع کروائیں گے۔

مردان کےسپورٹس کمپلیکس میں خواتین کے درمیان کرکٹ میچ کا ایک منظر (تصویر مردان ریجنل سپورٹس آفس)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے سرکاری حکام نے سپورٹس کمپلیکس میں جاری سپورٹس فیسٹول پر اعتراض کے بعد خواتین کھلاڑیوں پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’کسی کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور ادھوری رہ جانے والی کھیلوں کی سرگرمیاں دوبارہ اسی میدان میں شروع کروائیں گے۔‘

دوسری جانب مردان میں خواتین کھلاڑیوں نے اتوار کو خبردارکیا کہ اگر کھیل فوراً بحال نہ ہوئے تو وہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوں گی۔

صحافی عبدالستار کے مطابق 10 مارچ کو فیسٹیول کے دوسرے دن مقامی لوگوں نے سپورٹس کمپلیکس انتظامیہ کے سامنے احتجاج کیا تھا۔

ان کا الزام تھا کہ خواتین سپورٹس کے نام پر بے حیائی پھیلائی جا رہی ہے۔ بعد ازاں سپورٹس کمپلیکس انتظامیہ نے خواتین کھیلوں کو معطل کر کے مقامی لوگوں سے معاہدہ کیا جس کے بعد وہ منتشر ہوگئے۔

محکمہ کھیل کے سپرنٹنڈنٹ نورالواحد نے اقرار نامے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ آئندہ کوئی فی میل گیمز کھلے میدان میں نہیں ہوں گے۔ ایسے کھیل انڈور ہوں گے اور وہاں پر کوئی مرد عملہ موجود نہیں ہو گا۔

صحافی عبدالستار کے مطابق خواتین گیمز کی بندش پرمحکمہ کھیل کے سپرنٹنڈنٹ کی مدعیت میں ایک مقامی سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اور دیگر نو نامعلوم افراد کے خلاف گیمز زبردستی بند کروانے پر تھانہ شیخ ملتون میں مقدمہ درج کروا دیا گیا۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیرین مزاری نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ مردان واقعے میں ملزموں کے خلاف مقدمہ درج ہوچکا ہے اور ڈپٹی کمشنر نے واقعے کا نوٹس لیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا ایف آئی آر کی ایک کاپی وزارت انسانی حقوق کوموصول ہوچکی ہے۔ خواتین کو کھیلوں کے مقابلوں کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

خیبر پختونخوا میں کھیلوں کے ڈائریکٹر جنرل خالد خان نے کہا کہ کھیلوں میں حصہ لینا خواتین کا بنیادی حق ہے اور ان کا محکمہ کسی کو اجازت نہیں دے گا کہ وہ خواتین کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرے۔

’کھیل اسی گراؤنڈ میں ہوں گے۔ ہماری تمام متعلقہ افسران اور کوچز سے میٹنگ ہوئی ہے اور انہیں خواتین کھلاڑیوں کے لیے دوبارہ گراؤنڈ میں واپس لانے اور ضروری اقدامات اٹھانے کی ہدایات دے دی گئی ہیں۔’

خیبر پختونخوا ریجنل سپورٹس آر ایس او آفیسر نعمت اللہ نے بتایا کہ پیر کو ہونے والی ایک میٹنگ میں اس معاملے پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

نعمت اللہ نے بتایا کہ انہوں نے بعض وجوہات کی بنا پر مقامی میڈیا کو 10 مارچ سے شروع ہونے والے فیسٹیول کی کوریج سے روک دیا تھا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ کوریج سے روکنے کا انتقام لینے کے لیے یوٹیوبرز اور فیس بک پیج چلانے والے رپورٹروں نے ‘منفی اور حقائق کے برعکس رپورٹنگ’ کرکے سپورٹس کمپلیکس کے نزدیک ایک مدرسے کو خواتین کے خلاف اکسایا۔

انہوں نے کہا کہ مقامی میڈیا پر کوریج کی پابندی کی وجہ بعض نام نہاد صحافیوں اور رپورٹرز کا اپنے اکاؤنٹس کو مشہور کرنے کے لیے صحافت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنا تھا۔

سپورٹس آفیسر نے بتایا کہ حال ہی میں مردان جیل میں منعقد کروائے گئے مقابلوں میں ان کے ساتھ بعض مقامی صحافی گئے تھے۔

’اس موقعے پر ایک یوٹیوبر نے بغیر اجازت ایک قاتل کا انٹرویو لیا، جس میں نہ صرف قتل جیسے گھناؤنے جرم کی حوصلہ افزائی ہوئی بلکہ ملزم کا کیس بھی پیچیدہ ہوگیا۔‘

نعمت اللہ نے مزید بتایا کہ مذہبی حلقے نے اس سے قبل کبھی بھی سپورٹس کمپلیکس میں ہونے والے کھیلوں پر اعتراض نہیں کیا۔

’میڈیا میں خواتین کے کھیلوں کی غلط تشریح کرتے ہوئے اس کو بےحیائی اور بے غیرتی سے تشبیح دی گئی، جس کے بعد علما نے ہمیں خواتین مقابلے ان ڈور کروانے کا کہا۔ معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ہم نے فوری طور پر مقابلے رکوائے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ مردان سپورٹس کمپلیکس کی دیواریں چھوٹی ہیں جس کی وجہ سے وہاں فی الحال قناعتیں لگوائی جائیں گی جبکہ ان ڈور مقابلوں کو فوراً شروع کیا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر موجود مقامی علما کی ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ چونکہ متعلقہ سپورٹس کمپلیکس کسی زمانے میں تبلیغی مرکز ہوا کرتا تھا لہٰذا اس کو کھیلوں کی جگہ بناتے وقت کہا گیا تھا کہ یہاں صرف مرد کھلاڑی کھیلیں گے۔

اس کے علاوہ سپورٹس کمپلیکس میں جاری فیسٹیول کے دوران کھلاڑیوں کے لیے محفل موسیقی پر بعض علاقہ مکینوں کی تنقید بھی سامنے آئی تھی۔

مردان سے تعلق رکھنے والی کھلاڑی گل پری نے اس ساری صورتحال پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ مردان سپورٹس کمپلیکس میں ‘بنت حوا’ فیسٹیول کا بنیادی مقصد کھلاڑیوں کو آنے والے انڈر 21 مقابلوں کے لیے تیار کروانا تھا۔

’کمپلیکس میں صرف کرکٹ گراؤنڈ کی دیواریں چھوٹی ہونے کے سبب گراؤنڈ میں ہونے والی سرگرمیاں سڑک سے نظر آتی ہیں۔ یہیں سے ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال کر تنقید ہوئی۔‘

گل پری نے کہا کہ اگر خواتین کھلاڑیوں کو اندازہ ہوتا کہ ان کے کھیلنے پر پابندی لگا کر انہیں اتنا نقصان پہنچایا جائے گا تو وہ خود انتظامیہ سے دیوار اونچی کرنے اور دیگر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کرتیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل کسی بھی مرد یا خاتون کھلاڑی یہاں تک کہ سپورٹس کمپلیکس انتظامیہ کو مذہبی حلقے یا مردان کے مکینوں کی جانب سے ایسی کوئی دھمکی ملی نہ ہی کوئی اعتراض سننے کو ملا۔

مردان ریجنل سپورٹس آفس کے سپرنٹنڈنٹ ثاقب خان کا کہنا ہے کہ فیسٹیول کو میڈیا کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے نقصان پہنچا۔

خیبر پختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کے رکن اور بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کے صدر امجد خان نے بتایا کہ مردان سپورٹس کمپلیکس سکول، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طلبہ کو بہت بڑے پیمانے اور اعلی سطح پر کھیلنے کے مواقع اور سہولیات فراہم کرتا آرہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خواتین کھلاڑیوں پر اعتراض کے بعد انہیں صرف ان ڈور کھیلنے کا مطالبہ ہوا تھا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ہر کھیل کی نوعیت ان ڈور کی نہیں ہوتی اور نہ ہی ہر کھیل کو کھیلنے کی سہولیات تعلیمی اداروں میں ہوتی ہیں۔

’خواتین کو پہلے ہی مشکلات کا سامنا ہے اور بہت کم خواتین آگے آتی ہیں۔ لیکن ایسے حالات میں بھی مردان کی خواتین کا کھیلوں میں حصہ لینے کا تناسب کافی حوصلہ افزا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ایسے میں ان کی حوصلہ شکنی سے خواتین کا سپورٹس میں شمولیت کو بہت نقصان پہنچے گا۔‘

پشاور کے سپورٹس جرنلسٹ مسرت اللہ جان نے افسوس ظاہر کیا کہ کھیلوں کو کلچر کے ساتھ خلط ملط کر دیا گیا، جس کی وجہ سے اسے نقصان پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ مردان سپورٹس کمپلیکس میں خواتین کھلاڑیوں پر تنقید کی ایک وجہ وہاں منقعد موسیقی کا پروگرام بھی بنا، جو علاقائی ثقافت کے خلاف تھا۔

انہوں نے کہا کہ سپورٹس مقابلوں میں آج کل گلوکاروں کو بلا کر انہیں پانچ پانچ لاکھ روپے دیے جاتے ہیں جبکہ مناسب سپورٹس ایکوپمنٹ اور یونیفارم خریدنے سے قاصر کھلاڑیوں کو پلاسٹک کی شیلڈ تھما دی جاتی ہے۔

مسرت اللہ جان نے کہا کہ جو پیسے گلوکاروں کو دیے جا رہے ہیں، اس پر سب سے پہلا حق کھلاڑیوں کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’سپورٹس میں کلچر کو داخل کرکے کھلاڑیوں کا حق کھا کر گلوکاروں اور ڈی جے کو نواز کر نہ صرف کھلاڑیوں میں مایوسی پھیلی بلکہ ایک معاشرتی بگاڑ بھی پیدا ہوا۔‘

ادھر مردان کی خواتین کھلاڑیوں نے کہا کہ اگر متعلقہ سپورٹس کمپلیکس میں فی الحال حالات موزوں نہیں تو مردان میں خواتین یونیورسٹی کے پاس واقع نئے بننے والے سپورٹس کمپلیکس میں کھیلنے کی اجازت دی جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل