تعمیراتی اشیا مہنگی: ’معلوم نہیں گھر بنانے کا خواب پورا ہو سکے گا یا نہیں‘

گذشتہ تین سالوں میں پاکستان کے اندر تعمیرات میں بے پناہ اضافہ ہوا مگر تعمیراتی لاگت میں حالیہ اضافے کے بعد زیر تعمیر عمارتوں پر کام سست روی کا شکار ہے۔

پاکستان کے ہر حصے میں گذشتہ تین سالوں سے تعمیرات میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا، مگر تعمیراتی لاگت میں حالیہ اضافے کے بعد اب زیر تعمیر عمارتوں پر کام سست روی کا شکار ہے (اے ایف پی/ فائل)

کراچی کے ایک نجی ٹی وی چینل سے منسلک صحافی اعجاز شیخ نے ہاکس بے میں صحافیوں کی رہائشی کالونی میں اپنے پلاٹ پر مکان کی تعمیر کچھ عرصہ قبل شروع کی۔

مکان کی بنیادیں رکھنے سے پہلے پلاٹ پر مٹی اور پھتروں کی بھرائی کرکے ابھی تعمیر کا آغاز ہوا ہی تھا کہ اچانک تعمیراتی اشیا بشمول سیمنٹ، ریتی اور سریا وغیرہ کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے بعد ان کو  کام روکنا پڑ گیا۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے اعجاز شیخ نے بتایا: ’کراچی کے صحافیوں کی کالونی میں کچھ عرصہ قبل بہت سے صحافیوں نے اپنے گھروں کی تعمیر کا آغاز کیا اور آہستہ آہستہ مکانات کی تعمیر میں اضافہ ہوگیا۔ مگر گذشتہ ایک سال سے تعمیراتی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کام انتہائی کم ہوگیا ہے۔‘

اعجاز شیخ کے مطابق: ’کچھ عرصہ قبل سیمنٹ کی ایک بوری کی قیمت ساڑھے چار سو روپے تھی، جو اب ساڑھے آٹھ سو روپے ہوگئی ہے۔ 

’اس عرصے میں سٹیل یا سریے کی قیمت میں چار گنا اضافہ ہوا۔ تین سال قبل ایک اینٹ یا سیمنٹ کے بلاک کی قیمت 20 روپے تھی جو اب 35 روپے ہوگئی ہے۔ 

’گھر کی تعمیر میں ہزاروں اینٹوں یا بلاکس کا استعمال ہوتا ہے اور 15 روپے ایک بلاک کی قیمت پر اضافے سے بجٹ میں کئی سو گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے لوگوں نے تعمیر کا کام ترک کردیا ہے۔ اب تو لگتا ہے کہ گھر بنانے کا خواب پورا ہو بھی سکے گا یا نہیں۔‘

پاکستان کے ہر حصے میں گذشتہ تین سالوں سے تعمیرات میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا، مگر تعمیراتی لاگت میں حالیہ اضافے کے بعد اب زیر تعمیر عمارتوں پر کام سست روی کا شکار ہے۔

پاکستان میں اچانک تعمیرات میں اضافہ کیوں ہوا؟ 

تعمیراتی شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بڑے عرصے سے کم آمدنی والے افراد کے لیے کوئی بھی ہاؤسنگ سکیم متعارف نہ کرانے کے علاوہ آبادی میں اضافے کے تناسب سے مکانات کی تعمیر نہ ہونے کے باعث تعمیرات میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔  

ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے سابق چیئرمین اور فیڈریشن آف پاکستان چمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر عارف یوسف جیوا نے بتایا: ’بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے مکان نہ بننے کے باعث لوگ بغیر کسی منصوبہ بندی کے جہاں آئے وہاں آباد ہوگئے۔ 

’جیسے کہ زیادہ تر لوگ کچی آبادیوں میں آباد ہیں۔ حکومت نے گذشتہ 30 سالوں میں کم آمدن والے افراد کے لیے کوئی بھی سکیم نہیں دی۔ 

’ایسے میں لوگوں نے جب اپنے مدد آپ کے تحت تعمیرات شروع کیں تو اس کام میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے ایک کروڑ سے ایک کروڑ 20 لاکھ گھروں کی کمی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی کُل آبادی کا 52 فیصد کچی آبادیوں میں رہتا ہے۔

’30 سال قبل کراچی کی صرف 17 فیصد آبادی کچی آبادیوں میں رہتی تھی، جو اب 52 فیصد ہوگئی ہے۔

’حکومت نے کراچی میں 30 سال قبل دو کم آمدن ہاؤسنگ سیکمز تیسر ٹاؤن اور ہاکس بے شروع کیں، مگر تین دہایاں گزرنے کے باجود ان سکیموں پر مکمل طور عمل درآمد نہیں ہوسکا۔‘

عارف یوسف جیوا کے مطابق جب تعمیرات میں بے پناہ اضافہ ہوا تو تعمیراتی اشیا کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا، جس کے ساتھ سمینٹ، سٹیل اور دیگر اشیا کی قیمت انتہائی بڑھ گئی ہیں۔  

قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا؟

آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن یا اے پی سی ایم اے کی ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ وفاقی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم اور سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کے آغاز کے بعد تعمیراتی سرگرمیوں کے اضافہ ہوا، تو ملک میں سیمنٹ کی مانگ میں بھی اضافہ ہوا۔  

اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2019 اور 2020 کے دوران سیمنٹ کی مجموعی فروخت کا حجم 47.8 ملین ٹن رہا جو اس سے پچھلے سال کی نسبت 20 فیصد زیادہ تھا۔  مالی 2020 اور 2021 کے دوران سیمنٹ کی قومی برآمدات میں تقریباً 19 فیصد اضافہ دیکھا گیا، جس کے بعد سیمنٹ کی قیمت میں اضافے کے بعد اس کی فروخت میں کمی دیکھی گئی اور جنوری 2022 کے دوران سمینٹ کی مقامی فروخت میں 16 فیصد کمی دیکھی گئی۔  

ادارہ شماریات کی حالیہ دنوں جاری کی گئی ہفتہ وار سینسیٹو پرائس انڈیکس رپورٹ کے مطابق سیمنٹ کی قیمت میں پانچ فیصد اضافے کے بعد 50 کلوگرام والی بوری کی قیمت 749 روپے سے بڑھ کر 787 روپے ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مارچ 2021 کے مقابلے میں سیمنٹ کی قیمت میں مارچ 2022 تک 29.3 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔  

اس کے علاوہ سٹیل کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا۔ صرف چار دن میں سٹیل کے فی ٹن پر آٹھ ہزار روپے کا اضافہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق سٹیل کی قیمت اب دو لاکھ فی ٹن سے بڑھ کر دو لاکھ آٹھ ہزار روپے ہوگئی ہے۔  

سمینٹ کے فیکٹری مالکان بڑھتی قیمت کا الزام عالمی سطح پر خام مال کی قیمت اور ایندھن کی قیمت میں اضافے سے جوڑتے ہیں۔  

پاکستان میں سیمنٹ تیار کرنے والے بڑے کارخانوں میں سے ایک لکی سیمنٹ کے چیف ایگزیکٹو محمد علی ٹبہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ عالمی طور پر تیل اور کوئلے میں اضافے کے بعد سیمنٹ کی پیداواری لاگت اور خام مال کی قیمت میں اضافے کے بعد سیمنٹ کی قیمت میں اضافہ ہوا۔  

محمد علی ٹبہ کے مطابق: 'عالمی منڈی میں کوئلے کی قیمت میں کچھ عرصے کے دوران تین گنا اضافہ ہوا، جس کے بعد مجبوراً ہمیں بھی سیمنٹ کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑا۔ اس وقت سیمنٹ کی قیمت میں 40 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔‘

عارف یوسف جیوا کے مطابق سیمنٹ اور سریے کی قیمت میں بے پناہ اضافے کے ساتھ تعمیرات کی دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ 

ان میں ایلمونیم، کھڑیوں اور دروازوں کے استعمال ہونے والی لکڑی کا سامان، سینیٹری کے سامان اور ٹائلز اور ماربل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا۔ 

ان کے مطابق: ’اگر آپ 1000 مربع فٹ کا ایک گھر بنارہے ہیں تو تعمیراتی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے بعد فی مربع فٹ کی قیمت میں 1500 روپے تک اضافہ ہوا ہے۔ پہلے فی مربع فٹ ڈھائی ہزار روپے میں تعمیر ہوتا تھا اور اب قیمت میں اضافے کے بعد فی مربع فٹ کی تعمیر کی لاگت چار ہزار روپے ہوگئی ہے۔‘

نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم سے قرضہ لے کر گھر بنانا کتنا آسان؟  

موجودہ حکومت کے قیام کے بعد وزیراعظم عمران خان نے متوسط طبقے کے لیے کم شرح منافع اور آسان شرائط پر مکانات کی تعمیر کے لیے کمشرل بینکوں سے قرضہ دینے کا اعلان کیا۔ 

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کمرشل بینکوں کو ہدایات جاری کرنے ساتھ پالیسی بھی جاری کی۔  

اس پالیسی کے تحت کمرشل بینک پانچ مرلے کے مکان کے لیے 60 لاکھ روپے تک قرضہ دیں گے جبکہ پانچ سے 10 مرلے کے لیے ایک کروڑ روپے کا قرضہ دیا جا سکتا ہے۔  

یہ قرضہ لینا کتنا آسان ہے؟ جب یہ سوال صحافی اعجاز شیخ سے کیا گیا تو ان کا کہنا تھا: ’وزیراعظم ہاؤسنگ سکیم کے لیے بینک سے قرضہ لینا اتنا بھی آسان نہیں کہ کوئی بھی عام شخص جا کر بینک سے قرضہ حاصل کرلے۔ 

’میں نے تین مختلف کمشرل بینکوں میں قرضے کے لیے درخواستیں دیں مگر مجھے قرضہ نہیں ملا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بینک والے کہتے ہیں وزیراعظم سکیم سے نہیں، بینک سے سیدھا قرضہ لیں، مگر اس قرضے کی شرح منافع 24 فیصد سے زائد ہے۔‘

کراچی کے ریئل سٹیٹ بروکر اور اپنے کسٹمر کو بینک سے قرض لینے میں مدد کرنے والے تیرتھ داس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بینک سے قرضہ لینا انتہائی پیچیدہ نظام ہے۔ ’اگر آپ ایک فلیٹ پسند کرتے ہیں جس کی قیمت مارکیٹ کے لحاظ سے ایک کروڑ روپے ہے۔ اور اب آپ اس کو خریدنے کے لیے وزیراعظم سکیم کے تحت بینک میں قرضے کے لیے درخواست دیتے ہیں تو بینک کے اپنے ماہرین پہلے اس فلیٹ کی اصل قیمت کا تعین کریں گے، جو مارکیٹ ریٹ سے انتہائی کم ہوتا ہے۔

’مثال کے طور پر اگر آپ ایک کروڑ روپے کا گھر خریدنا چاہتے ہیں تو بینک کے ماہرین اس گھر کی اصل قیمت 70 لاکھ روپے لگائیں گے۔ 

’اب اگر بینک آپ کی درخواست قبول بھی کرلے تو آپ کو 70 لاکھ روپوں کا 80 فیصد یعنی 56 لاکھ روپے ملیں گے۔ فلیٹ کا مالک تو قیمت کم نہیں کرے گا جس کا مطلب ہوا کہ اگر آپ کا قرضہ منظور بھی ہوجائے تو باقی 44 لاکھ کا بندوبست آپ نے خود کرنا ہے۔ اگر اتنی رقم کسی کے پاس ہو تو وہ قرضہ کیوں لے گا۔‘

تیرتھ داس کے مطابق بینک کی ایک شرط ہے کہ قرضے کی درخواست کے ساتھ اس مکان، یا فلیٹ کی مالک کے دستاویز درخواست سے ساتھ بینک کو جمع کرانا لازمی ہوتا ہے۔ 

’جب آپ نے گھر یا فلیٹ خریدا ہی نہیں تو اس کا مالک آپ کو اصل دستاویز کیوں دے گا؟۔ یہ ایک اور وجہ ہے کہ آپ چاہتے ہوئے بھی سرکاری سکیم میں قرضے کی درخواست کی شرائط بھی پورے نہیں کرسکتے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت