پارلیمان حملہ کیس: صدر عارف علوی سمیت دیگر وفاقی وزرا بری

انسداد دہشت گردی عدالت نے منگل کو پی ٹی وی اور پارلیمان پر حملے کے کیس میں نامزد پی ٹی آئی رہنما اور وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، اسد عمر اور شفقت محمود کی بریت کی درخواستیں منظور کر لیں۔

یکم ستمبر 2014 کو اسلام آباد میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے حامیوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں۔ اسلام آباد کی عدالت نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو پی ٹی وی اور پارلیمان حملہ کیس میں بری کر دیا ہے (اے ایف پی)

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے 2014 میں پارلیمان اور پی ٹی وی پر حملے کے کیس میں صدر پاکستان سمیت حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کو بری کر دیا ہے۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج محمد علی وڑائچ نے منگل کو بریت کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے صدر عارف علوی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر اسد عمر، وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر دفاع پرویز خٹک اور دیگر ملزمان کی مقدمے سے بریت کی درخواستیں منظور کر لیں۔

ان کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی، عبدالعلیم خان، جہانگیر ترین اور اعجاز چوہدری سمیت دیگر ملزمان کی بھی بریت کی درخواستیں منظور کر لی گئیں۔

پراسیکیوشن نے ملزمان کی بریت کی درخواستوں پر کوئی مخالفت نہیں کی تھی اور اس پر فیصلہ نو مارچ کو محفوظ کیا گیا تھا۔

اس مقدمے میں وفاقی وزیر اسد عمر، شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک، شفقت محمود اور علیم خان سمیت 127 ملزمان نامزد تھے۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت وزیراعظم عمران خان کو پہلے ہی اس مقدمے میں بری کرچکی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی بریت سے متعلق عدالت نے نومبر 2019 میں فیصلہ محفوظ کیا تھا اور 29 اکتوبر 2020 کو فیصلہ سناتے ہوئے انہیں بری کر دیا گیا۔

وزیر اعظم کے وکیل کا موقف تھا کہ عمران خان بے قصور ہیں اور یہ ایک سیاسی مقدمہ ہے۔ پراسیکیوٹر نے بھی بریت پر اعتراض نہیں کیا تھا۔

اس سے قبل صدر پاکستان عارف علوی نے چار مارچ کو اپنا صدارتی استثنیٰ ختم کرنے کی درخواست بھی دائر کی تھی جسے منظور کر لیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر عارف علوی اپنے وکیل بابر اعوان کے ہمراہ خود عدلت پیش ہوئے اور کہا: ’مجھے پاکستان کا آئین استثنیٰ دیتا ہے مگرمیں یہ استثنیٰ نہیں لینا چاہتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے آئین کے پابند ہیں اور قرآن پاک اس سے بڑا آئین ہے اور اسلامی تاریخ میں استثنیٰ کی گنجائش نہیں۔

انہوں نے کہا: ’مجھ پر الزام تھا کہ میں نے ہتھیار سپلائی کیے ہیں۔ جب مجھے پتہ چلا کہ اس کیس کا فیصلہ لکھا جا چکا ہے تو عدالت میں پیش ہوا تاکہ  یہ نہ کہا جائے کہ میں پیش نہیں ہوا۔‘

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے چھ رہنماؤں موجودہ وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، پنجاب اسمبلی کے حکمراں جماعت کے ناراض رکن علیم خان اور جہانگیر ترین نے 2014 میں پی ٹی وی اور پارلیمان پر حملے کے کیس میں بریت کے لیے انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔

پی ٹی آئی رہنماؤں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کے خلاف سابق حکومت کے خلاف احتجاج کی پاداش میں انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) 1997 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

درخواست گزاروں کے مطابق اپوزیشن جماعتیں اب حکومت کے خلاف اسی طرح کے احتجاج کر رہی ہیں لیکن حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے پارلیمان کی جانب سے مارچ کیا اور اس کے بعد حکومت نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔

تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے سال 2014 میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اسلام آباد کے ڈی چوک پر طویل دھرنا دیا تھا جو 126 دن جاری رہنے کے بعد آرمی پبلک سکول حملے کے بعد ختم کر دیا گیا تھا۔

اس احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے یکم ستمبر کو پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کر دیا تھا، جس کی وجہ سے پی ٹی وی نیوز اور پی ٹی وی ورلڈ کی نشریات کچھ دیر کے لیے معطل ہوگئیں تھیں۔

حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں تقریباً 70 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں پارلیمنٹ ہاؤس، پی ٹی وی اور سرکاری املاک پر حملوں اور کار سرکار میں مداخلت کے الزام میں انسداد دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں توڑ پھوڑ اور سرکاری ٹی وی پاکستان ٹیلی ویژن پر حملے سیمت سینیئر پولیس اہلکار عصمت اللہ جونیجو کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری اس مقدمے میں بدستور اشتہاری ہیں۔

اس احتجاج میں حکومت کے مطابق تین افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوئے جبکہ 60 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست