پشاور: چابی سے کھلنے والا ’اخروٹ‘

حال ہی میں پشاور میں ایک فروٹ فروش نے اپنی دکان میں اس میوے کو متعارف کراکے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں اس کو متعارف کروانے کا اعزاز صرف انہیں حاصل ہے۔

خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں آج کل ایک خاص قسم کے خشک میوے کی بڑے چرچے ہیں۔ یہ میوہ ہے ’چابی والا اخروٹ‘۔

خشک میوہ جات کیلریز کا منبع ہوتے ہیں، تاہم ان میں انسانی جسم کے لیے درکار ضروری اور اہم اجزا جیسے کہ فائبر، پروٹین، وٹامن، منرلز اور صحت کے لیے ضروری چکناہٹ وغیرہ بھی پائے جاتے ہیں۔

روئے زمین پر انسان جہاں بودوباش کے نت نئے طریقے جان گیا ہے وہیں انسانوں میں تجسس اور سیکھنے کی صلاحیت نے اسے انواع و اقسام کے پھلوں، پودوں اور درختوں سے روشناس کروایا ہے۔

اسی تناظر میں، تقریباً پانچ صدی قبل آسٹریلیا کے مقامی باشندوں نے ایک ایسا خشک میوہ دریافت کیا جو اپنی مٹھاس اور ذائقے کی وجہ سے ان میں اس قدر مقبولیت حاصل کر گیا کہ وہ بطور خاص اس پھل کو حاصل کرنے کے لیے آسٹریلیا کے شمالی ڈھلوانوں کا سفر کرتے تھے۔

آسٹریلیا کے یہ مقامی لوگ اس خشک میوے کو مختلف ناموں جیسے ’جینڈل‘،’کینڈل کینڈل‘، ’بوپل‘ اور بومبرا‘ کے ناموں سے یاد کرتے تھے۔ تاہم  جدید دنیا میں اس کا نباتاتی نام ’میکیڈیمیا‘ لکھا جاتا ہے۔

رفتہ رفتہ میکیڈیمیا کی شہرت دیگر ممالک میں بھی پھیل گئی، تاہم ہر ملک کی آب و ہوا اس کے لیے موزوں نہ ہونے کی وجہ سے اس کی کاشت عالمی سطح پر محدود ہوکر رہ گئی، یہی آج میکیڈیمیا کے مہنگے ترین داموں فروخت ہونے کی ایک دلیل یہی بتائی جاتی ہے۔

جبکہ دوسری بڑی دلیلوں میں میکیڈیمیا کے درخت کا سات سال بعد پھل دینا اور اس پودے کے دس اقسام میں سے صرف ایک میں پھل دینے کی صلاحیت کا پایا جانا شامل ہیں۔

دنیا میں میکیڈیمیا کی 90 فیصد کاشت امریکہ کی ریاست ہوائی میں کی جاتی ہے، کیوں کہ وہاں کی آب و ہوا اس درخت کے لیے موزوں ترین ثابت ہوئی ہے۔ جہاں معیاری میکیڈیمیا کی پیداوار ان کے لیے کسی رحمت سے کم نہیں سمجھا جاتا۔

ہوائی کے جزیروں کی سیر پر جانے والے سیاح اپنے پیاروں کے لیے ائیر پورٹ اور بازاروں میں میکیڈیمیا کا تحفہ لینا اپنے دورے کا ایک لازمی جز سمجھتے ہیں، تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کی قیمت آسمان سے باتیں کرتی ہے۔

لہذا جب بھی ہوائی سے میکیڈیمیا کا تحفہ ملے تو اس کو حقیر جان کر سیاہ کونے کی نظر نہ کیا جائے۔

’ہوائی اوشن پراجیکٹ‘ نامی ویب سائٹ کے مطابق، پہلا میکیڈیمیا درخت 1881 میں ولیم پرویس نے بگ آئی لینڈ پر لگایا تھا جو کہ اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے بہت جلد عوام الناس خصوصاً ان کارخانہ داروں میں جو چینی کے کارخانے لگانے میں دلچسپی رکھتے تھے، میں شہرت حاصل کر گیا، جس کی بدولت آج 90 فیصد میکیڈیمیا ہوائی کی سرزمین پر اگایا جاتا ہے۔

پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں ابھی تک اس پھل کے نام اور شکل سے بھی ایک بڑی تعداد نا آشنا ہے۔

حال ہی میں پشاور میں ایک فروٹ فروش نے اپنی دکان میں اس میوے کو دستیاب کرکے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں اس کو متعارف کروانے کا اعزاز صرف انہیں حاصل ہوا ہے۔

حیات آباد کارخانو مارکیٹ میں واقع نایاب فروٹ فروش کے مالک گل ولی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں ہمیشہ نایاب خشک میوہ جات جمع کرنے اور فروخت کرنے کا شوق رہا ہے، اور یہی شوق انہیں میکیڈیمیا کو جاننے میں مددگار ثابت ہوا۔

’یہ اخروٹ جو ذائقے کے اعتبار سے پستے، بادام، کاجو سے بھی زیادہ ذائقہ دار ہے، ایک چابی سے کھلتا ہے۔ اس کا خول اتنا سخت ہے کہ اس کو ٹرک کے نیچے بھی رکھ دو تو یہ نہیں ٹوٹے گا۔‘

گل ولی نے بتایا کہ انہوں نے یہ میوہ آسٹریلیا سے منگوایا ہے، اور اس کی چابی بھی وہیں سے اس میوے کے ساتھ وہ درآمد کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جو بھی دکان پر آتا ہے اور اس کا ذائقہ چکھتا ہے وہ اس کو ضرور خریدتا ہے اور آگے دوستوں کو بھی گفٹ کرتا ہے۔‘

گل ولی نے فی کلو میکیڈیمیا کی قیمت پانچ ہزار بتائی، تاہم انہوں نے کہا کہ اس کی قیمت اوپر جاسکتی ہے۔

دکان پر انٹرویو کے دوران کئی خریداروں نے ’چابی والے اخروٹ‘ نام لے کر اس کے بارے میں پوچھا، تاہم اکثریت قیمت کا سن کر لوٹ گئی۔

آس پاس کے دیگر خشک میوہ فروخت کرنے والے جن کے پاس میکیڈیمیا دستیاب نہیں تھا، انہوں نے اس میوے کو ایک دھوکہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’چین نے مصنوعی انڈہ تک ایجاد کرلیا، مصنوعی اخروٹ ایجاد کرنا کون سا مشکل ہے۔ یہ پھل نہیں کوئی دھوکہ نظر آتا ہے۔‘

میکیڈیمیا کے حوالے سے چند حقائق

کہا جاتا ہے کہ جس قدر یہ پھل انسانوں کے لیے بعض اہم نباتاتی اجزا کی وجہ سے اہم سمجھا جاتا ہے، اسی قدر یہ کتوں اور بلیوں کے لیے نقصان دہ ہے اور اگر وہ اس کو کھالیں تو ان میں تقریباً 12 گھنٹے کے لیے چلنے پھرنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔

اس میں چکناہٹ کی وافر مقدار کی وجہ سے میکیڈیمیا کا تیل بالوں کی خشکی دور کرنے کے لیے بھی مفید سمجھا جاتا ہے۔

میکیڈیمیا کو انگریزی میں زیادہ تر ’نٹ‘ کا نام دیا جاتا ہے، دراصل ایک بیج ہے۔

بعض طبی ویب سائٹس کے مطابق، میکیڈیمیا میں کاپر، میگنیز اور تھایامن وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ کاپر انسانی جسم میں آئرن کو جذب کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، جب کہ میگنیز اور تھایامن جسم میں کاربوہائیڈریٹ میٹابولزم کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔

طبی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ 10 سے 12 میکیڈیمیا بیج میں 203 کیلیوریز اور 21.4 گرام چکناہٹ ہوتی ہے۔

تاہم جن میکیڈیمیا بیجوں کے اوپر چاکلیٹ کی تہہ جمائی گئی ہوتی ہے، اس میں کیلوریز کی تعداد مزید زیادہ ہوسکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا