لاہور کی پچ سے امیدیں وابستہ کرنا درست ہو گا؟

اگر لاہور ٹیسٹ نتیجہ خیز ہوتا ہے تو یہ سب کے لیے بہتر ہوگا کیونکہ راولپنڈی کے بعد کراچی میں بھی بے جان پچ نے مستقبل میں غیر ملکی دوروں پر سوال اٹھا دیے ہیں۔

19 مارچ 2022 کی اس تصویر میں پاکستانی ٹیم کے کپتان بابر اعظم اور ہیڈ کوچ ثقلین مشتاق لاہور کے قدافی سٹیڈیم کی پچ کا جائزہ لے رہے ہیں(اے ایف پی)

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان سوموار سے لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں تیسرا ٹیسٹ شروع ہو رہا ہے۔ یہ اس گراؤنڈ پر 41واں ٹیسٹ میچ ہوگااور آسٹریلیا کے خلاف چھٹا میچ ہوگا۔

 اس سے قبل پانچ میچوں میں سے دو میچوں کا فیصلہ ہوسکا ہے جن میں سے ایک پاکستان اور ایک آسٹریلیا نے جیتا ہے۔

پاکستان نے آخری دفعہ یہاں 1994 میں میچ کھیلا تھاجو ڈرا ہو گیا تھا جبکہ آخری جیت 1982 میں حاصل ہوئی تھی جو عمران خان کی بولنگ کی مرہون منت تھی۔

موجودہ سیریز کا یہ تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ ہے اس سے قبل دونوں ٹیسٹ ڈرا ہوگئے تھے۔ کراچی ٹیسٹ میں ایک موقع پر فیصلہ کی امید ہوگئی تھی تاہم مہمان ٹیم کی بری فیلڈنگ اور بابر اعظم کی عمدہ بیٹنگ نے اسے نتیجہ خیز ہونے سے روک دیا تھا۔

لاہور ٹیسٹ میں توقع کی جا رہی ہے کہ فل کراؤڈ ہوگا کیونکہ کراچی میں سٹینڈز خالی پڑے رہے۔ آخری مفت ٹکٹ بانٹنے کے باوجود تماشائیوں کی تعداد خاصی حوصلہ شکن تھی۔

 اگر لاہور ٹیسٹ نتیجہ خیز ہوتا ہے تو یہ سب کے لیے بہتر ہوگا کیونکہ راولپنڈی کے بعد کراچی میں بھی بے جان پچ نے مستقبل میں غیر ملکی دوروں پر سوال اٹھا دیے ہیں۔

پچ کیسی ہو گی؟

لاہور کی پچ روایتی طور پر ملی جلی ہوتی ہے۔ فاسٹ بولرزکے لیے اس پر پہلے دن مدد ہوتی ہے لیکن پھر بیٹنگ کے لیے آسان ہوجاتی ہے۔

پچ پر باؤنس بھی نارمل ہوتا ہے جس سے بلے بازوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔تاہم آخری دو دن سپنرز کو ہلکی سی مدد ملتی ہے لیکن کسی ڈرامائی بولنگ کا امکان نہیں ہوتا ہے۔

ماضی میں عمران خان اپنی سیم بولنگ سے یہاں خطرناک بولنگ کرتے رہے ہیں لیکن وہ دلیری سے کام لیتے ہوئے پچ پر گھاس چھوڑدیا کرتے تھے تاکہ پچ بالکل بیٹنگ پچ نہ بن جائے۔ ان کے بعد کسی بھی کپتان نے یہاں گراسی پچ نہیں بننے دی۔

حالیہ ٹیسٹ میں بھی پچ بیٹنگ ہوگی۔ پچ پر گھاس کا نام ونشان نہیں ہے۔ سپاٹ اور ہموار پچ کے باعث بولرز بس سر پٹختے رہیں گے اوررنز کے انبار لگتے رہیں گے۔

اگرچہ پاکستانی ہیڈ کوچ نے ورچوئل کانفرنس میں یقین دلایا ہے کہ لاہور پچ نتیجہ خیز ہوگی اور ایک مثبت کرکٹ دیکھنے کو ملے گی لیکن ان کے الفاظ اور پچ کی تازہ ترین تصویر میں کوئ ہم آہنگی نہیں ہے۔

ٹیم کیا ہو گی؟

پاکستان یقینی طور پر اسی ٹیم کو کھلائے گا جو کراچی میں کھیلی تھی۔ کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ اگرچہ ماہرین ایک لیگ سپنر کو کھلانے پر زور دے رہے ہیں لیکن زاہد محمود کے لیے ابھی کوئی جگہ نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیٹنگ میں فواد عالم کا دونوں اننگز میں ناکام ہونے پر کچھ آوازیں آ رہی ہیں کہ سعود شکیل کو ڈیبیو کرایا جائے تاہم اس کی کوئی امید نہیں۔

آسٹریلیا بھی اپنی وہی ٹیم برقرار رکھے گا۔ ممکن ہے جوش ہیزل ووڈ سویپسن کی جگہ واپس آجائیں لیکن اس کا فیصلہ پچ دیکھ کرہوگا۔ ٹریوس ہیڈ کی جگہ ہوسکتا ہے کہ مچل مارش کو کھلایا جائے کیونکہ ٹریوس دونوں اننگز میں ناکام رہے تھے۔

سیاسی بے چینی کا سیریز پر اثر

ملک میں پھیلی ہوئی سیاسی بے چینی نے وقتی طور پر سیریز کو زیادہ متاثر نہیں کیا ہے سوائے اس کے کہ ایک روزہ سیریز لاہورمنتقل کردی گئی ہے۔ تاہم حالات اگر مزید کشیدہ ہوئے تو سیریز کے ختم ہونے کے بھی آثار ہیں۔

24 سال کے بعد آنے والی آسٹریلین ٹیم کا جس طرح پاکستانی سیاست نے استقبال کیا ہے اس سے ہر پاکستانی کو تکلیف پہنچی ہے۔

 اگر اس دورے کے مکمل ہونے کے بعد سیاسی احتجاج ہوتے تو دورہ خدشات کے بغیر جاری رہتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ