کَرن خان کیس: ’دو موبائل اور پیسوں کا تھیلا غائب‘ پولیس کی تردید

خیبر پختونخوا کے فنکاروں کی صوبائی تنظیم ’ہنری ٹولنہ‘ کے مطابق ’احتجاج یہ نہیں کہ موسیقی کا پروگرام کیوں بند کروا دیا گیا، بلکہ اعتراض پولیس کے طریقہ کار پر ہے۔‘

عوامی نیشنل پارٹی کے صدر نے گلوکار کرن خان کے ساتھ ہوئے واقعے کو ریاستی دہشتگردی سے تشبیہہ دی (فائل تصویر: ٹوئٹر، کرن خان)

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک نجی محفل موسیقی پر پولیس کے چھاپے اور نتیجتاً آلات موسیقی کی ’توڑ پھوڑ‘ اور مدعو مہمانوں سے ’مار پیٹ‘ کے واقعے کے بعد احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے، جن میں حالیہ واقعےکو ’پشتون ثقافت پر حملہ‘ قرار دیا جارہا ہے۔

اس حوالے سے ہوئی بات چیت کے دوران گلوکار کرن خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پولیس نے ان کا ایک الیکٹرک پیانو اور کچھ دیگر سازوسامان توڑ دیا ہے، جب کہ جو چار موبائل اور پیسوں کا تھیلا وہ اٹھا کر لے گئے تھے، اس میں سے دو موبائل اور پیسوں کا تھیلا ابھی تک غائب ہے۔‘

’گذشتہ روز مجھے سی سی پی او اعجاز خان مہمند نے اپنے دفتر بلایا اور غائب سامان کی ریکوری کی یقین دہانی کروائی۔ انہوں نے مجھے مطمئن کیا کہ وہ معاملے کی مکمل تفتیش کرکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔‘

دوسری جانب تھانہ پشتخرہ کے ایس ایچ او نے واقعے کی تردید کی ہے۔

19 مارچ کی شب ہونے والے اس واقعے کے بعد اسلام آباد میں گذشتہ روز ’نوے ژوند‘ نامی ایک ادبی و ثقافتی تنظیم نے نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او اور ان کے ساتھیوں کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’فنکار اور شاعر امن کے سفیر ہیں، اور وہ ثقافت کے محافظ ہوتے ہیں۔‘

 

پشتون گلوکار نجیب ہمدرد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 23 مارچ کو بڑے پیمانے پر پشاور پریس کلب کے سامنے فنکاروں، گلوکاروں، موسیقاروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی جانب سے ایک انوکھا احتجاج ہوگا، جس کا اعلامیہ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جاری کر دیا گیا ہے۔

اس بات کی توثیق خیبر پختونخوا کے فنکاروں کی صوبائی تنظیم ’ہنری ٹولنہ‘ نے بھی کی اور کہا کہ ان کا احتجاج یہ نہیں کہ موسیقی کا پروگرام کیوں بند کروا دیا گیا، بلکہ انہیں اعتراض پولیس کے طریقہ کار پر ہے۔

سوشل میڈیا پر جہاں عام عوام نے واقعے کی مذمت کی، وہیں عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے اس کا خصوصی نوٹس لیتے ہوئے واقعے کو ریاستی دہشتگردی سے تشبیہہ دی۔

تفصیلات کے مطابق، انیس مارچ کی شب پشاور میں سفید ڈھیری کے علاقے نذیرآباد میں واقع ایک فارم ہاؤس میں موسیقی کی ایک تقریب تھی،جس میں خیبر پختونخوا کے ایک نامور گلوکار کَرن خان کو مدعو کیا گیا تھا۔

 تقریبا بیس کنال پر مشتمل یہ فارم ہاؤس ایک دیہی علاقے میں ہے، اور اس کے عین داخلی دروازے کے پاس ایک مسجدومدرسہ بھی واقع ہے۔ جب کہ اس سے ملحقہ کوئی مکان یا دوسری عمارت نہیں ہے۔

 عینی شاہدین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دراصل یہ ایک مہندی کی تقریب تھی، جس میں تقریباً 80 مرد مہمان مدعو تھے۔

’تقریباً رات گیارہ بجے کے قریب اچانک پولیس اندر داخل ہوئی۔ سپاہیوں نے آلات موسیقی اٹھاکر زمین پر پٹخ دیے، شرکا کو مارا پیٹا، اور موسیقاروں، اور دولہے کو تھانے لے گئے۔‘

واقعے پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے گلوکار کرن خان نے کہا کہ مختلف شعبوں سے ان کے ساتھ احتجاج میں جن لوگوں نے یکجہتی دکھائی وہ ان کے مشکور ہیں۔

’میں خود کل کے احتجاج میں حصہ نہیں لے رہا کیوں کہ کیپٹل سٹی پولیس نے مطمئن کروا دیا ہے، تاہم جو لوگ احتجاج کررہے ہیں یہ ان کا حق ہے، کہ آزادئ اظہار رائے ہر کسی کا حق ہے۔‘

تھانہ پشتخرہ کے حدود میں پیش انے والے اس واقعے کے حوالے سے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او ظفر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دراصل جس رات یہ واقعہ پیش آیا وہ عبادت کی رات ’شب برات‘ تھی، جس پر اہلیان علاقہ نے مشتعل ہوکر ان کو پروگرام بند کروانے کی درخواست کی تھی۔

پیسوں اور موبائل کے غائب ہونے کے حوالے سے ایس ایچ او ظفر خان نے کہا کہ ’پیسوں اور موبائل چوری کے حوالے سے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ موبائل اس دور میں کوئی کیسے چوری کر سکتا ہے؟ جس کو شکایت ہے آئیں میں درج کر لوں گا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ اس گھر نما حجرے میں موسیقی کے پروگراموں کا منعقد ہونا ایک معمول بن چکا تھا، جس سے محلے کے لوگ تنگ آچکے تھے۔

’چونکہ عوام مشتعل تھے، لہذا میں بحیثیت ایک ذمہ دار افسر وہاں گلوکار ودیگر کو باحفاظت نکالنے کے لیے گیا۔‘

جب انڈپینڈنٹ اردو نے پوچھا کہ انہوں نے آلات موسیقی کیوں توڑے جب کہ وہ محض ایک حکم دے کر پروگرام بند کروا سکتے تھے، تو انہوں نے تردید کی اور اس بات کو پولیس پر الزام قرار دیا۔

’پولیس نے موسیقی کا سامان نہیں توڑا، ضرور یہ مشتعل ہجوم نے توڑا ہوگا۔ میرے علم میں ایسا کچھ نہیں ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے گلی میں بھی پوچھ گچھ کی، جس کے جواب میں کچھ نوجوانوں نے کہا کہ وہ اسی محلے میں رہتے ہیں، اور انہیں صرف یہ معلوم ہے کہ پولیس کو کسی نے اطلاع دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ’اس فارم ہاؤس میں ہر مہینے ایک دو پروگراموں کا منعقد ہونا ایک معمول بن چکا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب، اس فارم ہاؤس کی چوکیداری پر مامور ایک خاندان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے مالکان شہری علاقے  میں رہتے ہیں، جو کہ گھروں میں جگہ کم ہونے کے باعث اکثر کھانے کی دعوتوں اور شادی بیاہ کی تقاریب یہاں منعقد کرواتے ہیں۔

’البتہ اس دوران ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ لان کی جگہ ہال کے اندر موسیقی چلائیں۔ اس بار یہ صرف نوجوانوں کی ایک تقریب تھی، اور موسم کے مناسبت سے انہوں نے کھلی فضا میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔‘

چوکیدار نے بتایا کہ اس سے قبل کسی نے ان کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کی۔

فنکاروں کی صوبائی تنظیم ’ہنری ٹولنہ‘ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس صوبے میں پہلے ہی فن اور فنکاروں کو کئی مشکلات کا سامنا ہے، ایسے میں حالیہ واقعہ ان کی مزید حوصلہ شکنی کے برابر ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان