نظر بد سے ’بچانے والی نیلی آنکھ‘

افغانستان میں اس نیلے رنگ کے چھوٹے گول ڈیزائن کو ’گلچک‘، ’شین کوسی‘، ’چشم نظر‘،’نظر قربانی‘ اور کئی دیگر ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

تاریخ میں مختلف عقائد پر یقین رکھنے کا سلسلہ ہزاروں سالوں سے چلتا آ رہا ہے، جس میں نظر بد اور اس سے بچاؤ کی تدابیر کرنا سب سے نمایاں اور قابل غور رہا ہے۔

مختف تہذیبوں میں نظر بد سے بچنے کے لیے مختلف تدابیر کی گئیں، تاہم ان میں سب سے زیادہ شہرت کی حامل ’نیلی آنکھ‘ رہی، جس کو یونان میں ’متی‘، ترکوں نے ’نظر بونجو‘، اور بحیرہ روم کے ساحل کے آس پاس آباد علاقوں و مغربی ایشیائی قوموں نے اپنی زبان کے مطابق ایک نام دیا۔

عالمی سطح پر موجودہ دور میں ’ترکش ایول آئی‘ کا نام زیادہ زبان زد عام ہے اور نیلے رنگ کی ایک گول لکیر سے بنی جیولری وغیرہ زیادہ شہرت کی حامل ہے، جس نے رفتہ رفتہ اب فیشن کی صورت اختیار کر لی ہے، اور یہاں تک کہ معروف و مشہور ماڈلز اور اداکارائیں جیسے کہ کم کارڈیشن، میگن مارکل اور گیگی حدید بھی اس کا استعمال کرتی آئی ہیں۔

گیگی حدید نے اسی عقیدے کی بنیاد پر ’ایول آئی‘ والے جوتے بھی متعارف کروائے۔

قدیم یونانی فلسفے کے مطابق، جب کوئی بری یا حسد کی نظروں سے کسی کی جانب دیکھتا ہے تو وہ اس دوران زہریلی شعائیں خارج کرتا ہے، جس سے آس پاس کی خلا ان شعاؤں سے بھر جاتی ہے اور نتیجتاً، سامنے والا شخص اس کا شکار ہوجاتا ہے۔

ایک یونانی فلسفی پلوٹارک نے ’نیلی آنکھ‘ کی تشریح کچھ اس طرح کی ہے کہ چونکہ حسد اور بری نظر سے نکلنے والی شعائیں بعض اوقات اس قدر خطرناک ہوسکتی ہیں کہ وہ ایک چھوٹے بچے یا جانور کی جان تک لے سکتی ہیں، لہذا ان کا یہ دعویٰ ہے کہ بعض انسانی آنکھوں میں یہ شعائیں انتہائی طاقتور ہوتی ہیں، جو کہ زیادہ تر ’نیلی آنکھوں‘ والے لوگ ہوتے ہیں۔

لوہا لوہے کو کاٹتا ہے کے مصداق ، نیلی آنکھوں کی طاقتور شعاؤں یا دیگر وجوہات سے موصول ہونے والے منفی اثرات کو ختم کرنے کے خلاف ’نیلی آنکھ‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

افغان ’نظربد‘

نظر بد کا عقیدہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح جنوبی ایشیائی قوموں میں بھی موجود رہا ہے۔ جب کہ ’نظر بد‘ کے فلسفے سے اتفاق رکھنے والوں نے مقامی طور پر بھی اس کو تیار کروانا شروع کیا۔

ان ہی میں سے افغانستان کی’شیطانی آنکھ‘ بھی ہے، جو کہ ڈیزائن میں ترکی کی ’شیطانی آنکھ‘ سے مختلف ہے۔

افغانستان میں اس نیلے رنگ کے چھوٹے گول ڈیزائن کو ’گلچک‘، ’شین کوسی‘، ’چشم نظر‘،’نظر قربانی‘ اور کئی دیگر ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، جس کو بطور خاص نوجوان لڑکیاں شادی بیاہ کے مواقع پر اپنے کپڑوں پر ٹانکتی ہیں۔

افغان مائیں خصوصاً اس نیلے رنگ کی آنکھ کو اپنے نومولود بچوں کو پہناتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان باشندے جہاں جہاں گئے وہاں اپنی ثقافت بھی ساتھ لے گئے، یہی وجہ ہے کہ آج کل پشاور کے بازاروں میں بھی ’نیلی آنکھ‘ کی فروخت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے، جس کو اب نہ صرف افغان خواتین بلکہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی خریدنے لگی ہیں۔

اگرچہ پہلے یہ روایت افغان خواتین میں عام تھی، لیکن اب خیبر پختونخوا کی شادی بیاہ کی تقریبات میں خواتین کو یہ افغانی نیلی آنکھ پہنے دیکھا جاسکتا ہے۔

پشاور کے بورڈ بازار میں ایک افغان خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ زیادہ تر افغانی ملبوسات پر لگایا جاتا ہے، اس کے علاوہ شادی بیاہ اور بچوں کی پیدائش پر انہیں لگایا جاتا ہے۔ اس خاص ڈیزائن کو تاج کہا جاتا ہے اور اس کو کندھے کے پاس لٹکایا جاتا ہے۔‘

اسی بازار میں خریداری کرنے والی ایک پاکستانی خاتون انیلہ جو کہ ایک ٹیکسٹائل ڈیزائنر ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ افغانی نیلی آنکھ میں اکثر ایک تعویذ رکھا جاتا ہے۔

’تعویذ کو نیلی آنکھ میں بند کرکے یہ نہ صرف نظر بد کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے بلکہ اس سے فیشن بھی مقصود ہوتا ہے۔‘

انیلہ نے کہا کہ آج کل یہ نظر سے زیادہ ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا