سرکار حکومت بچانے میں مصروف، معاشی اعدادوشمار پریشان کن

ماہرین کے مطابق اگر ملکی معاشی پالیسیاں تبدیل نہ کی گئیں تو مستقبل میں پاکستان کو سری لنکا والی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

سات  مارچ 2022 کی اس تصویر میں کراچی میں  ایک سٹاک بروکر  پاکستان سٹاک ایکسچینج میں حصص کی تازہ ترین قیمتیں دیکھتے ہوئے اپنے موبائل فون پر بات کر رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان کو اس وقت غیر یقینی سیاسی صورت حال کا سامنا ہے، جس کا اثر معیشت پر بھی پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

سرکار کی توجہ حکومت بچانے کی جانب مبذول ہے اور عام آدمی کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ ڈالر کی قیمت 182 روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔ رمضان سے پہلے اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ آٹو موبیل کمپنیوں نے بھی ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گاڑیوں کی قیمت میں اڑھائی لاکھ سے 13 لاکھ روپے تک اضافہ کر دیا ہے۔

حکومت کی پوری توانائیاں تحریکِ عدم اعتماد پر ہیں، لیکن عام آدمی کو حکومتوں کے آنے یا جانے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ان کے مسائل روٹی، کپڑا اور مکان ہیں۔ عوام ان بنیادی ضرورتوں کے مسائل سے نکلے گی تو ہی فیصلہ کرسکے گی کہ سیاسی میدان میں ان کے لیے کون صحیح اور کون غلط ہے۔ پاکستانی عوام کی دلچسپی سیاست نہیں معیشت میں ہے اور روزانہ کی بنیاد پر بدلتے ہوئے معاشی اعداد و شمار ان کی پریشانی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ 

ملکی معاشی صورت حال جاننے کے لیے جب میں نے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان کے جنرل سیکریٹری اور ماہر معیشت ظفر پراچہ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’ملکی ٹیکس آمدن تقریباً چھ ہزار ارب روپے ہے، جس میں سے تقریباً ساڑھے چار ہزار ارب روپے قرضوں کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں۔ تقریباً تین ہزار چار سو ارب روپے صوبوں کی جھولی میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ تقریباً ایک ہزار تین سو ارب روپے فوج کو دیے جاتے ہیں۔ تقریباً ایک ہزار ارب روپے پiنشنز کی مد میں ادا کرنا ہوتے ہیں۔ تقریباً آٹھ سو ارب روپے کے نقصانات کارپوریشنز کے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔‘

’یعنی مالی سال کے پہلے ہی دن حکومت کی آمدن‎ ختم ہو جاتی ہے اور بقیہ پورا سال قرضوں پر گزرا کرنا ہوتا ہے۔ قرضوں کی صورت حال یہ ہے کہ پونے چار سالوں میں 30 کھرب روپوں سے بڑھ کر 51 کھرب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ سعودی عرب اور چین کے بعد جی 20 ممالک سے بھی قرضوں کی مدت بڑھانے کی درخواست کر دی گئی ہے۔ روپے کی قدر میں تقریباً 60 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ شرح سود 9.75 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے۔ مہنگائی تقریباً 13 فیصد تک پہنچ چکی ہے اورکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالرز کی حد کو چھو رہا ہے۔‘

ظفر پراچہ کے مطابق: ’اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ یہ صورت حال نئی حکومت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوگی۔ ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ملک میں نئی حکومت بنتی ہے تو ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج معیشت ہوگی۔ ’یہ کشتی طوفان کی زد میں ہے۔ اگر نئی حکومت اسے بھنور سے نکال کر ساحل تک لانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ مایوسی کا شکار پاکستانی عوام کے لیے تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہو گا۔‘

ملکی معاشی سمت جاننے کے لیے میں نے ڈاکٹر فرخ سلیم صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی معیشت نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ’کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتا ہے۔ 2018 میں جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تھی تو پاور سیکٹر کے گردشی قرضے ایک کھرب 14 ارب روپے تھے، جو اب بڑھ کر ڈھائی کھرب روپے ہوگئے ہیں۔ گیس کے گردشی قرضے 350 ارب روپے سے بڑھ کر 600 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں جبکہ زراعت کے شعبے میں گردشی قرضے 900 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کے علاوہ حکومت آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدوں سے مکر رہی ہے، جس کے باعث مستقبل قریب میں ملک میں ڈالرز کی قلت پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ ڈالر ذخائر ایک مرتبہ پھر 16 ارب ڈالرز سے کم ہوگئے ہیں۔ حکومت تین ماہ سے مطلوبہ مقدار سے کم ڈیزل خرید رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں ملک کو ڈیزل کی قلت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر سری لنکا کا آٹھ ماہ قبل کا معاشی گراف دیکھیں تو پاکستان کی موجودہ صورت حال کے مشابہ ہے۔ آج سری لنکا کے پاس ڈیزل اور اناج خریدنے کے لیے ڈالرز نہیں ہیں۔ ان کے پاس بجلی پیدا کرنے کی مکمل مشینری موجود ہے لیکن ڈیزل نہ ہونے کی وجہ سے سات گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی طرح انہوں نے بھی چین سے قرضے موخر کرنے کی درخواست کی ہے۔‘

ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق: ’اگر ملکی معاشی پالیسیاں تبدیل نہ کی گئیں اور ڈالرز ذخائر میں اضافہ نہ کیا گیا تو مستقبل میں پاکستان کو سری لنکا والی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

اصل سوال یہ ہے کہ اگر نئی حکومت بنتی ہے تو کیا وہ ان مسائل کا احسن حل پیش کر سکے گی؟ بظاہر ایسا کوئی منشور نظر نہیں آ رہا، جس سے یہ مسائل فوراً حل ہو جائیں۔ نئی حکومت کو بھی وقت درکار ہوگا، تاہم بہتر اور تجربہ کار معاشی ٹیم کے ساتھ ان مسائل پر قابو پانا ممکن ہے۔ لیکن ماضی کی حکومتوں کا ٹریک ریکارڈ بھی اس معاملے پر کچھ زیادہ بہتر نہیں۔

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ سے جب معاشی صورت حال پر رائے لی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ’اس حقیقت میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے، ایسی صورت حال میں نیا تجربہ ناکام ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔‘

بقول ڈاکٹر سلیمان شاہ: ’جو پارٹیاں نئی حکومت بنانا چاہتی ہیں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا۔ 15 ہزار میگاواٹ توانائی کے منصوبے لگانے کے لیے ن لیگ نے گیس اور کوئلے کے منصوبے لگائے جبکہ ترکی نے اسی دوران 10 ہزار میگا واٹ کے سولر منصوبے لگائے۔ پاکستان کو کوئلہ اور گیس درآمد کرنا پڑتے ہیں۔ اگر سولر منصوبوں پر توجہ دی جاتی تو آج بجلی بھی سستی ہوتی اور ڈالر کا ریٹ بھی کم ہوتا۔ نئی حکومت آئے گی تو آئی ایم ایف کے پرانے پروگرام کو معطل کرکے نیا پروگرام لانے کی کوشش کرے گی جو پہلے سے زیادہ سخت ہو گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت