خیبر پختونخوا: سکیورٹی صورتحال پچھلے رمضان سے مختلف کیوں؟

30 اضافی پولیس موبائل ٹیموں سمیت ابابیل فورس، سٹی پٹرولنگ فورس، 30 سپیشل رائڈرسکواڈز ماہ رمضان میں ہمہ وقت حساس مقامات پر گشت کریں گے۔

پانچ مارچ 2022 کو پشاور میں خودکش حملے کے ایک دن بعد ہلاک شدگان کی نماز جنازہ کے لیے پولیس اہلکاروں کا پہرہ (فائل تصویر: اے ایف پی)

صوبہ خیبر پختونخوا میں کیپیٹل سٹی پولیس کی جانب سے پچھلے رمضان کی نسبت اس مرتبہ سکیورٹی خطرات زیادہ ہونے کے پیش نظر زیادہ تعداد میں پولیس نفری تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

چار ہزار سے زائد پولیس جوان صوبہ خیبر پختونخوا میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیں گے۔

سی سی پی او محمد اعجاز خان نے محکمہ پولیس کےسوشل میڈیا اکاؤنٹس کے لیے جاری کیے گئے بیان میں کہا ہے کہ’30 اضافی پولیس موبائل ٹیموں سمیت ابابیل فورس، سٹی پٹرولنگ فورس، 30 سپیشل رائڈرسکواڈز ماہ رمضان میں ہمہ وقت حساس مقامات پر گشت کریں گے۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ساڑھے پانچ سو سے زائد مساجد پر ایک ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات ہوں گے، جب کہ بازاروں اور رش والی جگہوں پر خواتین پولیس اہلکار بھی موجود رہیں گی۔

سکیورٹی پلان کے تحت دو پولیس اہلکار ہر مسجد پر لازماً تعینات ہوں گے، جب کہ جو مقامات زیادہ حساس ہیں وہاں پر نفری کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ اسی طرح نماز تراویح کے لیے بھی خصوصی انتظامات کرلیے گئے ہیں۔

کیا سیکیورٹی انتظامات کے حوالے سے موجودہ رمضان میں کچھ مختلف ہے، اس حوالے سے سابق پی آر او برائے سی سی پی او دفتر اور موجودہ صدر تھانہ کے ایس ایچ او مبارک زیب خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سکیورٹی کے لحاظ سے پچھلے رمضان کے برعکس اس مرتبہ حالات مختلف ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس بار ’تھریٹس‘ زیادہ ہیں، اور اسی تناسب سے انتظامات کیے جارہے ہیں۔

’دو پولیس اہلکارپچھلے سالوں میں بھی ماہ رمضان میں  مساجد پرتعینات کیے جاتے تھے، تاہم اس مرتبہ مساجد کی فہرست طویل اور سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کردیا گیا ہے۔‘

آفیسر مبارک زیب نے کہا کہ پولیس کے جوان اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر عوام کی خدمت میں ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں، لہذا انہوں نے عوام کے نام ایک پیغام میں کہا کہ وہ پولیس کے ساتھ تعاون کریں۔

’عوام کے تعاون کے بغیر پولیس کی کارکردگی بہتر نہیں ہوسکتی۔ جہاں پولیس کو تلاشی کی ضرورت ہو یا شناختی کارڈ مانگ لیا جائے تو تعاون کریں اور جہاں کوئی مشکوک سامان یا شخص نظر آئے تو پولیس کو اطلاع دے دی جائے۔‘

رواں سال کے دوران اب تک ملک بھر میں دہشت گردی کے 85 واقعات میں 294 لوگ  جان سے گئےہیں، جن میں 98 عام شہری، 88 اہلکار اور 108 دہشت گرد شامل ہیں۔

پچھلے سال 2021 میں پاکستان میں دہشت گردی کے 267 واقعات ریکارڈ ہوئے تھے جن میں 663 افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ اس اعداد وشمار میں 214  عام عوام اور 226 قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔حکام کے مطابق، ان واقعات میں 223 دہشت گرد بھی مارے جاچکے ہیں۔

 پاکستان میں زیادہ تر دہشت گرد کارروائیوں میں داعش خراسان، تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان میں علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیمیں ملوث رہی ہیں۔

رواں سال رمضان کے مہینے میں غیر معمولی حفاظتی اقدامات اٹھانے کی دوسری وجہ بدھ کو تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے جاری کیا گیا ایک اعلان بھی ہے۔

میڈیا اور وٹس ایپ گروپس میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان محمد خراسانی کی جانب سے جاری کیے گئے ایک خط میں پاکستانی عوام کو خبردار کیا گیا ہے کہ ماہ رمضان میں وہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، حکومتی تنصیبات، اور املاک کے خلاف ’البدر‘ نامی دہشت گرد کارروائیوں کا فیصلہ کرچکی ہے۔

محمد خراسانی کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیہ کے مطابق’ٹی ٹی پی کی رہبر شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں، اور حکومت پاکستان کے لیے کام کرنے والے دیگر حکام کے خلاف خودکش، گھات حملوں، مائن کارروائیوں، ٹارگٹ کلنگ، جوابی حملوں، لیزری اور سنائپرحملے کیے جائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان حکومت کے ساتھ پچھلے کچھ عرصے میں دو مرتبہ امن مذاکرات اور جنگ بندی کے لیے راضی ہونے والے اس دہشت گرد گروپ کا بہار کی آمد کے ساتھ ان حملوں کا اعلان ایک غیر معمولی اقدام تصور کیا جارہا ہے۔

یہ اعلان اس حال میں کیا جارہا ہے کہ چند دن قبل دہشت گرد ٹانک اور وزیرستان کے مکین علاقے میں پاکستانی فوج اور فرنٹئیر کانسٹبلری کے اہلکاروں پر حملہ آور ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں کئی پاکستانی اہلکار قتل اور زخمی ہوئے تھے۔

ان حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے تیس سے زائد پاکستانی فوجیوں کو نشانہ بنایا۔

قابل ذکر ہے کہ دہشت گرد ہمیشہ اپنی کارروائیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے رہے ہیں، جب کہ حکومتی اداروں پر ایسی کارروائیوں کو دبانے اور انہیں دیر سے رپورٹ کرنے کا الزام لگتا آرہا ہے۔ ان علاقوں میں میڈیا اور آزاد ذرائع کی پہنچ نہ ہونے کی وجہ سے دونوں اطراف کے دعوؤں کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان