عہدے سے ہٹنے پر عمران خان کن مراعات سے محروم ہوئے؟

پاكستان میں منتخب حكومتی عہدیدار مدت ختم ہوتے ہی سركاری مراعات كے اہل نہیں رہتے اور انہیں ایسی تمام سہولتیں فوراً یا مخصوص عرصے میں چھوڑنا پڑتی ہیں۔

25 جون 2020 کی اس تصویر میں سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

پاكستان كے 22ویں وزیراعظم عمران احمد خان نیازی ہفتے اور اتوار كی درمیانی شب قومی اسمبلی میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد كی كامیابی كے بعد ملک كے چیف ایگزیكٹو نہیں رہے۔

وزیر اعظم كے عہدے سے ہٹنے كی وجہ سے عمران خان كی سربراہی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں كی 25 وفاقی وزرا، پانچ وزرائے مملكت اور چار مشیروں پر مشتمل وفاقی كابینہ بھی ختم ہو چكی ہے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان قومی اسمبلی میں اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل ہی شاہراہ دستور پر واقع پرائم منسٹر ہاؤس سے اسلام آباد كے قریب بنی گالا میں واقع اپنے ذاتی گھر كے لیے روانہ ہو گئے تھے۔  

پاكستان میں منتخب حكومتی عہدیدار مدت ختم ہوتے ہی سركاری مراعات كے اہل نہیں رہتے اور انہیں ایسی تمام سہولتیں فوراً یا مخصوص عرصے میں چھوڑنا پڑتی ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان كو بھی سربراہ حكومت كے عہدے سے ہٹنے كے باعث كچھ مراعات سے تو فوراً ہی ہاتھ دھونا پڑا جبكہ بعض دوسری چیزیں وہ متعلقہ قوانین میں درج مخصوص وقت كے دوران واپس كر سكتے ہیں۔

پاكستان مسلم لیگ ن كی گذشتہ حكومت میں پارلیمانی امور كے وفاقی وزیر رہنے والے شیخ آفتاب كا كہنا ہے کہ ’وزیراعظم اور وزرا كو حاصل تمام مراعات ان كے عہدے ختم ہوتے ہی واپس كرنا ہوتی ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم اور وزرا كو مہیا كی جانے والی مراعات سے متعلق قوانین موجود ہیں، جن میں ان سہولتوں كی واپسی كا طریقہ كار بھی درج ہے۔‘

انہوں نے مزید كہا: 'قانون كے علاوہ بعض مراعات مخصوص روایات كے تحت دی جاتی ہیں اور ان كی واپسی كے لیے بھی روایات ہی كا سہارا لیا جاتا ہے۔

ماہوار تنخواہ اور الاؤنسز

پاكستان میں وزیراعظم كو ماہانہ تنخواہ اور دوسرے الاؤنسز 1975 میں بننے والے قانون (وزیر اعظم کی تنخواہ، الاؤنسز اور مراعات ایکٹ) كے مطابق ادا كیے جاتے ہیں۔ سال 2019 میں سابق وزیراعظم عمران خان كی منظر عام پر آنے والی ایک سیلری سلپ كے مطابق وہ مجموعی طور پر ایک لاكھ 96 ہزار 979 روپے ماہانہ تنخواہ كی مد میں وصول كرتے تھے۔

پاكستان تحریک انصاف كی وفاقی حكومت نے 2020 میں اس قانون میں مزید ترمیم كے ذریعے وزیراعظم كی تنخواہ میں اضافے كا پلان بنایا تھا، تاہم سابق چیف ایگزیكٹو عمران خان نے اس تجویز كو رد كر دیا۔ 

یاد رہے كہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور حكومت كے دوران اپنی ماہانہ تنخواہ كا ذكر كرتے ہوئے كہا تھا كہ یہ ان كے اخراجات كے لیے كافی نہیں ہے۔

وزیراعظم كے عہدے سے ہٹنے كے بعد عمران خان اس ماہوار آمدنی سے محروم ہوگئے ہیں۔

سركاری گھر اور دفتر

 اسلام آباد كی شاہراہ دستور پر واقع دیگر پرشكوہ عمارتوں میں سے ایک وزیراعظم ہاؤس ہے، جو دراصل ملک كے چیف ایگزیكٹو اپنے دفتر اور رہائش كے لیے استعمال كرتا ہے۔

آٹھ سو كنال پر محیط وزیراعظم ہاؤس میں آفس ونگ دفتری كاموں كے لیے استعمال ہونے والا حصہ ہے جبكہ فیملی ونگ وزیراعظم كی رہائش گاہ كے طور پر مختص ہے۔

عام طور پر چیف ایگزیكٹو كا عہدہ سنبھالنے كے بعد وزرائے اعظم اپنی فیملیز كو وزیراعظم ہاؤس كے فیملی ونگ منتقل كر لیتے ہیں، جو معیاد كے ختم ہونے تک وہیں رہائش پذیر رہتی ہیں۔

وزیر اعظم ہاؤس كے ایک سینیئر عہدیدار كے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان اس سلسلے میں مختلف ثابت ہوئے۔

انہوں نے دعویٰ كیا كہ سابق وزیراعظم عمران خان یا ان كے خاندان كے كسی فرد نے وزیراعظم ہاؤس كا فیملی ونگ كبھی استعمال ہی نہیں كیا۔

نام ظاہر نہ كرنے كی شرط پر مذکورہ سینیئر عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو كو بتایا: 'وزیر اعظم (عمران خان) صاحب صبح دفتر آتے تھے اور شام كو بنی گالا میں اپنے ذاتی گھر چلے جاتے تھے۔'

چونکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس كے فیملی ونگ كی سہولت كبھی استعمال ہی نہیں كی، اس لیے وہ انہیں خالی كرنے كی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔

تاہم عمران خان اب وزیراعظم ہاؤس كے پرتعیش آفس ونگ كے استعمال سے فوراً محروم ہو گئے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان كے خلاف تحریک اعتماد كی منظوری كے بعد پیر (11 اپریل) پہلا وركنگ ڈے ہو گا، لیكن عمران خان ساڑھے تین سالوں میں پہلی مرتبہ اپنے دن كا آغاز اس دفتر سے نہیں كریں گے۔

یہاں یہ ذكر ضروری ہے كہ پاكستان تحریک انصاف كے سربراہ نے حكومت میں آنے سے قبل وزیراعظم ہاؤس كو یونیورسٹی میں تبدیل كرنے كا وعدہ كیا تھا جسے وہ ساڑھے تین سال میں پورا نہ كر سكے۔

لگژری گاڑیاں

پی ایم ہاؤس كے سینیئر عہدیدار نے بتایا كہ سابق وزیراعظم عمران خان كے ذاتی استعمال میں بی ایم ڈبلیو ایکس فائیو گاڑی رہتی تھی، جس میں وہ گھر اور دفتر كے درمیان اور دوسری جگہوں كے سفر كرتے تھے۔

تاہم انہوں نے كہا كہ پروٹوكول كے مطابق ہر پاكستانی وزیر اعظم گھر یا دفتر سے كبھی اكیلے نہیں جاتے بلكہ ایک موٹر كیڈ كی صورت میں باہر نكلتے ہیں، جس میں ان كی گاڑی كے علاوہ سٹاف اور سكیورٹی كی گاڑیاں شامل ہوتی ہیں۔

وزیراعظم ہاؤس كے ایک دوسرے عہدیدار كے مطابق بی ایم ڈبلیو ایکس فائیو كے علاوہ مرسڈیز مے باخ (S-600s) سابق وزیر اعظم كی پسندیدہ گاڑی تھی۔

عمران خان اپنے دور حكومت كے دوران پاكستان آنے والے غیر ملكی سربراہان كو اس گاڑی میں لاتے لے جاتے تھے، جسے بین الاقوامی میڈیا میں شوفر ڈپلومیسی كے نام سے پكارا گیا۔

عمران خان وزیر اعظم كے عہدے سے ہٹنے كے بعد اب ان گاڑیوں كے استعمال كے حق دار نہیں رہیں گے۔

تاہم شیخ آفتاب كے مطابق وزیر اعظم كے ذاتی استعمال میں رہنے والی گاڑی كی واپسی كے لیے 15 دن كی معیاد مقرر ہے۔ 

یہ امر دلچسپ ہے كہ سابق وزیر اعظم نواز شریف كے دور حكومت میں وزیراعظم ہاؤس كے لیے بیشتر گاڑیاں خریدی گئی تھیں، جن میں سے اكثر عمران خان نے حكومت میں آنے كے بعد فروخت کروا دی تھیں۔

ہیلی كاپٹر

سابق وزیراعظم سركاری گھر تو استعمال نہیں كرتے تھے، لیكن دفتر اور بنی گالا میں اپنی رہائش گاہ كے درمیان 15 كلومیٹر كے سفر كے لیے دن میں كم از كم دو (بعض اوقات زیادہ) مرتبہ سركاری ہیلی كاپٹر استعمال کرتے تھے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سال 2018 میں پاكستان تحریک انصاف كی حكومت بننے كے چند ماہ بعد ہی سابق وزیراعظم كی ہیلی كاپٹر كے استعمال كی عادت منظر عام پر آئی، جس پر پاكستانی اور بین الاقوامی میڈیا میں بہت كچھ لكھا گیا۔

سابق وزیراعظم كے ہیلی كاپٹر كے بے تحاشا اور بے جا استعمال پر تنقید كا جواب ان كے وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین نے یہ كہہ كر دیا تھا كہ اس سفر كا خرچہ محض 55 روپے فی كلومیٹر ہے۔

چوہدری فواد حسین كی اس وضاحت كو بھی سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لیا گیا تھا۔

سابق وزیراعظم عمران خان ملک كے چیف ایگزیكٹو نہ رہنے كے بعد سركاری ہیلی كاپٹر كی اڑانوں سے بھی محروم ہو جائیں گے۔

سكیورٹی اور پروٹوكول

چند سال قبل قومی اسمبلی میں پوچھے گئے ایک سوال كے جواب میں حكومت نے ایوان كو آگاہ كیا تھا كہ عمران خان كے ذاتی گھر (بنی گالا) پر مختلف سكیورٹی ایجنسیوں كے چار سو اہلكار تعینات ہیں۔

اسی طرح وزیراعظم ہونے كی حیثیت سے وہ گھر یا دفتر سے باہر جاتے ہوئے سخت سكیورٹی حصار میں گھرے ہوتے تھے، جو پاكستان كے مخصوص حالات كے باعث ضروری بھی تھا۔

اسی طرح وزیراعظم كے ملک كے كسی حصے كے دورے كی صورت میں متعلقہ ضلع كی انتظامیہ كا وہاں ہونا ضروری ہوتا ہے، جو چیف ایگزیكٹو كی شان و شوكت میں اضافے كا باعث بنتا ہے۔

عہدے سے نكالے جانے كے بعد عمران خان ان مراعات و سہولیات سے محروم ہوگئے ہیں۔

دیگر مراعات

قانون كے مطابق وزیراعظم پاكستان اور ان كے اہل خانہ دوسری مراعات كے علاوہ ریلوے سیلون، ریور کرافٹ، ہوائی جہاز اور سرکاری کاریں بھی اپنے ذاتی استعمال میں لا سكتے ہیں اور حتیٰ کہ سركاری فرائض كی انجام دہی كے لیے ریلوے ٹرین بھی حاصل كر سكتے ہیں۔

اسی طرح وزیراعظم پاكستان اور ان كے خاندان كے افراد كو علاج كی ہر سہولت بھی حكومت فراہم كرے گی جبكہ چیف ایگزیكٹو كو بعض ٹیكسوں میں بھی چھوٹ حاصل ہوتی ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے ان مراعات سے فائدہ اٹھایا ہو یا نہیں، عہدے سے ہٹائے جانے كے بعد وہ ان كے اہل نہیں رہے۔

توشہ خانہ

توشہ خانہ کابینہ ڈویژن کے زیر انتظام ایک سرکاری ملکیت کا محکمہ ہے، جس کا بنیادی مقصد صدر، وزیر اعظم، وزرا اور ایم این ایز كو بیرون ملک سے ملنے والے تحفے ركھنا ہے۔ 

حكومتی اہلكار توشہ خانے میں موجود بیرون ملک سے ملنے والے تحائف ایک مخصوص رقم ادا كر كے خرید سكتے ہیں۔

پاكستان تحریک انصاف كے تین سالہ دور حكومت كے دوران اس كے حكومتی اہلكاروں پر توشہ خانے سے سستے داموں خریداری كے الزامات لگے اور اس متعلق ایک كیس اسلام آباد ہائی كورٹ میں زیر سماعت بھی ہے۔

عمران خان وزیراعظم نہ رہنے كے بعد توشہ خانہ سے خریداری كی سہولت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان