محمد احسان کا تعلق ایبٹ آباد کے نواحی قصبے نواں شہر سے ہے اور وہ یہاں 25 سال سے خطاطی کر رہے تھے لیکن اب سموسے بیچتے ہیں۔
محمد احسان کی آمدن میں گزشتہ ایک دہائی سے کافی حد تک کمی آئی ہے اور انہیں شدید مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
25 سال سے خطاطی، مصوّری اور خوش نویسی کے شعبوں سے وابستہ محمد احسان اپنے فنون میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں جو اپنے بڑے بھائی شبیر حسین کے ساتھ نامور اداروں کے لیے کام کر چکے ہیں۔
لیکن اب دونوں بھائیوں کے حالات اس نہج کو پہنچ چکے ہیں کہ ان کے پاس اب ضروری سامان خریدنے کے بھی پیسے نہیں ہوتے۔
محمد احسان اب اپنا وقت تصویر سازی اور خوش نویسی کی بجائے سموسوں کی تیاری میں گزراتے ہیں کیوں کہ ان کے بقول بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے انہوں نے پنسل اور برش کے بجائے سموسوں کا ٹھیلہ لگا رکھا ہے جو ان کے فنون کا دم توڑتا پہلو ہے۔
محمد احسان کے بڑے بھائی شبیر حسین شاعری، مصوری، موسیقی، خطاطی اور کئی دوسرے شعبوں میں بھی دسترس رکھتے ہیں۔
ان شعبوں سے وابستہ ہوئے انہیں تقریباً 35 برس گزر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اب فنون زوال پذیر ہو چکے ہیں کیوں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب فنونِ لطیفہ کو سمجھنے والے اور ان سے محبت کرنے والوں کی کمی ہو رہی ہے۔‘
شبیر بتاتے ہیں کہ ’ہر گزرتے دن کے ساتھ خطاطی اور مصوری کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ اب یہ کام سائنسی آلات اور کمپیوٹر کی مدد سے کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے فنون زوال پذیر ہوتے جا رہے ہیں اور ان سے وابستہ افراد کے لیے گھریلو اخراجات پورے کرنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شبیر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا 'میں نے آج سے تین عشرے قبل جب یہ کام شروع کیا تب تو بات ہی کچھ اور تھی مگر اب تو کاروبار بس شوق کی حد تک ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک عشرہ پہلے تک کلاسیکل موسیقی کے علاوہ کاغذ پر لکھائی کا کام بہت زیادہ تھا اور ہمارے ہاں گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا تھا مگر ڈیجیٹل اشتہارات اور پینافلیکسس کے باعث ہمارا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔‘
’اس وقت آڈیو کیسٹس بہت عروج پر تھیں جو آج محض سامان کا بوجھ بن کر رہ گئی ہیں یا پھر ایک بوجھل یاد قرار دے دی گئی ہیں۔‘
شبیر حسین شوق کے اعتبار سے نعت خواں اور غزل گلوکار بھی ہیں جن کے پاس نایاب گرامو فون اور اوریجنل ماسٹر کے نایاب ریکارڈز کے علاوہ درجنوں نادر ٹیپ ریکارڈر اور ان کی کیسٹس کے ریکارڈ کا ایک بڑا زخیرہ بھی موجود ہے جو ان کا ماضی میں کاروبار رہنے کے ساتھ شوق بھی بن چکا ہے۔
شبیر کے بقول ٹیپ ریکارڈر کا زمانہ اگرچہ ماضی کی داستان بن چکا ہے مگر ان جیسے لوگوں کا دل آج بھی کیسٹ کی ٹیپ سے جڑا ہے۔ کبھی موسیقی سے لطف اندوز ہونے کا اہم ذریعہ یہ کیسٹ زمانے کی تیز گام ٹیکنالوجی کے پہیے کا مقابلہ نہ کرپائی۔
محمد احسان اس حقیقت پر قدرے افسردہ ہیں کہ موجودہ زمانے میں کلاسیکل موسیقی کے ساتھ خطاطی اور مصوری کی افادیت بھی کھو گئی ہے اور طالب علموں میں اس کا شوق نہیں رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے فنون کی سرپرستی حکومت کرے ورنہ یہ فنون بھی جلد معدوم ہو جائیں گے۔