امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ہفتے کم از کم دو مرتبہ روس پر یوکرین میں نسل کشی کا الزام عائد کیا جس پر امریکی حکام کو میڈیا کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے صدر جو بائیڈن کی جانب سے ماسکو کے خلاف یوکرین میں ’نسل کشی‘ کے الزام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ روسی افواج یوکرین اور اس کی شہری آبادی کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
صدر بائیڈن نے منگل کو پہلی بار روسی صدر ولادی میر پوتن اور ان کی افواج پر ’نسل کشی‘ کا الزام لگایا تھا تاہم انہوں نے مزید کہا تھا کہ یہ فیصلہ قانونی ماہرین کریں گے کہ آیا روس کے طرز عمل کو نسل کشی کے زمرے میں شامل کیا جائے گا یا نہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ آپ کے خاندان کا بجٹ۔ آپ کا ٹینک بھروانے کا بل۔ اس بات پر منحصر نہیں ہونا چاہیے کہ ایک آمر نے آدھی دنیا پار جنگ مسلط کی اور نسل کشی کی۔‘
اسی روز ایک مختلف جگہ پر جب امریکی صدر بائیڈن سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ نے مناسب ثبوت دیکھ لیے ہیں کہ یوکرین میں نسل کشی ہو رہی ہے تو امریکی صدر نے جواب دیا ’جی ہاں۔‘
امریکی صدر بائیڈن نے اپنے جواب میں مزید کہا کہ ’میں نے اسے نسل کشی کہا ہے کیوں کہ اب واضح تر ہوتا جا رہا ہے کہ پوتن یوکرینی ہونے کا خیال ہی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ثبوت آ رہے ہیں۔ وہ گذشتہ ہفتے سے مختلف ہیں۔ مزید ثبوت آ رہے ہیں جو بتاتے ہیں کہ روسیوں نے یوکرین میں گھناؤنے کام کیے ہیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کی جونیئیر عہدیدار وکٹوریہ نولینڈ نے نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا ’میں یہ پیشین گوئی کرنے جا رہی ہوں کہ صدر بائیڈن نے جو کہا ہے وہ وہی (نسل کشی ہی) ہے اور بالآخر وقت ملنے پر ہم ان تمام شواہد کو اکٹھا کر سکیں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کیوں کہ حقیقت میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کوئی حادثہ نہیں ہے۔ یہ روس اور اس کی افواج کی جانب سے یوکرین اور اس کی شہری آبادی کو تباہ کرنے کا ایک دانستہ فیصلہ ہے۔‘
اقوام متحدہ کی جانب سے 1948 میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے شروع ہونے والے کنونشن کے مطابق نسل کشی کی تعریف یہ ہے کہ ’ایک قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کا ارادہ۔‘
ماہرین اس لفظ کے استعمال میں محتاط ہیں جب کہ مغربی رہنما روس پر نسل کشی کا الزام لگانے کے بارے میں منقسم ہیں۔
کریملن نے بائیڈن کے اس اصطلاح کے استعمال کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔
امریکی سفارت کار صدر بائیڈن کے بیان کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی طور پر سخت قانونی موقف کے بجائے ایک ’اخلاقی‘ موقف اپنا رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے یوکرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’صدر بائیڈن کو خوفناک فوٹیج دیکھ کر یہ تاثر ملا کہ ہم سب نے ماریوپول، بوچا، خارکیو اور دوسری جگہوں سے جو کچھ دیکھا ہے اس سے روس کی جانب سے شہریوں کے خلاف مظالم کا تاثر ملتا ہے۔‘
پرائس نے کہا کہ ’اس بات کی اہمیت کم ہے کہ آپ اسے کیا کہتے ہیں بجائے اس کے کہ آپ اس کا کیا جواب دیتے ہیں اور ہم اپنے یوکرینی شراکت داروں کو روسی جارحیت کے خلاف دفاع کے لیے مدد فراہم کرکے اپنے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چاہے یہ جنگی جرم ہو، چاہے یہ ظلم ہو، چاہے یہ نسل کشی ہو اس سے ہماری حکمت عملی تبدیل نہیں ہوتی۔‘
وائٹ ہاؤس ترجمان جین ساکی کو بھی گذشتہ روز (بدھ کو) پریس بریفنگ کے دوران میڈیا کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان سے پوچھا گیا کہ صدر بائیڈن کے اس سخت بیان کے بعد روسی صدر پوتن امن مذاکرات سے انکار کر سکتے ہیں تو ساکی کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ایسا نہیں ہو گا۔‘
انہوں نے صحافی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسا نہیں ہو گا کہ صدر پوتن اس کا اثر لیں گے اور فیصلہ کریں گے کہ انہیں امن مذاکرات میں حصہ نہیں لینا اس وجہ سے کہ امریکی صدر کے منہ سے کچھ الفاظ ادا ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’صدر پوتن مذاکرات میں شامل ہونے کا فیصلہ کریں گے اگر وہ ان کے مفاد میں ہو گا۔‘
امریکی صدر بائیڈن نے یورپ کے دورے کے دوران ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر پوتن کے حوالے سے کہا تھا کہ ’یہ شخص اقتدار میں نہیں رہ سکتا۔‘
بعد ازاں امریکہ واپس آنے کے بعد صدر بائیڈن نے وضاحت دی کہ اس بیان کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ’ہم روسی صدر کو اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
وائٹ ہاؤس ترجمان جین ساکی سے گذشتہ روز کی پریس بریفنگ کے دوران صدر بائیڈن کے اس رویے پر سوال ہوا کہ کیا اس سے عالمی رہنماؤں کے لیے خطرہ نہیں کہ صدر بائیڈن کے منہ سے نکلے الفاظ ذاتی رائے ہے یا پالیسی بیان؟
اس پر جین ساکی کا کہنا تھا کہ ’صدر پوتن سفاکانہ طور پر سولین کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ایک ملک پر ظلم کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’صدر بائیڈن نے ان مظالم پر اور جو یوکرین میں ہو رہا ہے اس پر بات کی تھی۔ دیگر بہت سے رہنماؤں نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔‘
جین ساکی سے پوچھا گیا کہ اگر امریکہ نے یوکرین میں جو ہو رہا ہے اسے نسل کشی
قرار دینا ہے تو اس پر کیا قانونی ذمہ داریاں لاگو ہوتی ہیں؟
ساکی کا کہنا تھا کہ ’اس سے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بین الاقوامی سطح پر اس کی تحقیق ہو گی۔ اس میں اکثر کئی سال لگ جاتے ہیں۔‘
جین ساکی سے وضاحت مانگی گئی کہ کیا یوکیرن میں امریکی فوج بھجوانے کے صدر بائیڈن کے موقف میں تبدیلی آئی ہے تو انہوں نے کہا کہ ’کچھ تبدیل نہیں ہوا۔‘