وفاق اور پنجاب میں گذشتہ دو ہفتے میں عمران خان کی حکومتوں کا اختتام ہوا لیکن یہ وقت ہمارے آئین اور میڈیا کے لیے بھونچال سے کم نہیں تھا۔
عمران خان کے بار بار دعووں کے باوجود کہ شیروانی نہیں پہننے دوں گا، شہباز شریف شیروانی سمیت وزیراعظم ہاؤس میں داخل ہو چکے ہیں لیکن ان کا سخت امتحان ابھی شروع ہوا ہے۔
معیشت سے لے کر گورننس جیسے چیلینجز اپنی جگہ لیکن شہباز شریف کا سب سے بڑا امتحان اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔
بی این پی مینگل اور ایم کیو ایم کی کابینہ میں شمولیت سے معذرت کے بعد اب اے این پی نے بھی معذرت کر لی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے مستعفی ہو کر سڑکوں پر نام نہاد امریکی سازش کا چورن بیچ رہی ہو اور اتحادی جماعتیں کابینہ میں ہی شامل ہونے کو تیار نہ ہوں، شہباز شریف کے لیے حکومت چلانا آسان نہیں ہو گا۔
لیکن شہباز شریف کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے تعجب نہیں ہو گا اگر وہ آئندہ چھ ماہ میں اپنی پرفارمنس سے سب کو حیران کر دیں۔
عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند دن پہلے ہونے والی ملاقات میں انہوں نے واضح طور پربتایا کہ انہیں وزیراعظم بننے سے زیادہ خوشی اس دن ہو گی جب ان کی حکومت پرفارم کرنا شروع کرے گی۔ وہ پریشان تو لگ رہے تھے کہ کیسے ملک کو آگے بڑھایا جائے گا۔ لیکن انہوں نے حلف اٹھانے سے پہلے ہی معیشت اور توانائی سیکٹر میں درپیش چیلنجز کے لیے اپنی منصوبہ بندی مکمل کر لی تھی۔
اگر شہباز شریف واقعی پرفارم کر گئے تو یہ عمران خان کی سیاست کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہو گا۔ ایک طرف پرفارمنس ہو اور دوسری جانب آپ کا ڈوبتا بیانیہ تو پھر پارٹی بھی مزید تقسیم در تقسیم کا شکار ہو گی جس کی جھلک ہمیں آئندہ چند ہفتوں میں نظر آنا شروع ہو جائے گی۔
افواج پاکستان کے ترجمان کی ایک اہم پریس کانفرنس کے بعد عمران خان کے امریکی سازش والے بیانیے سے ہوا نکل چکی ہے جس کی جانب اشارہ پانچ اپریل کو تحریر کیے گئے کالم میں واضح الفاظ میں کیا جا چکا ہے۔
تحریک انصاف ایک ایسا بیانیہ بنانا چاہتی تھی جس سے ان کی بنیادی اور کور سپورٹ دوبارہ سے منظم ہو سکے اور اس بیانیے کی کامیابی کے لیے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
البتہ یہ بات پی ٹی آئی کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آئین پاکستان اور امریکہ کے ساتھ ملکی تعلقات کی قیمت پر بنایا گیا یہ بیانیہ شاید کچھ عارضی کامیابیاں تو سمیٹ لے لیکن یہ حکمت عملی بہت سے معاملات میں آل ریڈی بیک فائر کر چکی ہے۔
اس وقت نوشتہ دیوار یہ ہے جو کہ خان صاحب کو پڑھ لینی چاہیے کہ مبینہ امریکی سازش کا بھانڈا آئندہ آنے والے چند دنوں اور ہفتوں میں بیچ چوراہے پھوٹنے والا ہے۔
لیکن خان صاحب اس سب کچھ کے باوجود بھی آنکھیں بند کرکے اپنے قافلے کو لیڈ کرنے پر ہی مصر ہیں۔
ان کے پیروکار ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں لیکن گذشتہ تین مہینوں سے ہم جیسے صحافی جو تحریر کر رہے ہیں اگر خان صاحب ایک وزیراعظم ہو کر بھی ان چیزوں کو نہ سمجھ پائے تو پھر ان کے پیروکارمستقبل میں خان صاحب سے کیسے سیاسی بصیرت کے تحت فیصلے کرنے کی توقع رکھ سکتے ہیں؟
اس وقت پی ٹی آئی کا کور سپورٹر واپس آ چکا ہے لیکن وہ لوگ تحریک انصاف سے بہت دور جا چکے ہیں جو کہ صرف پرفارمنس کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ ووٹر بھی اب عمران خان سے کوسوں دور ہو چکا ہے جس نے ان کو کو 2018 کے انتخابات میں اس لیے ووٹ دیا کیونکہ وہ ایک مختلف پاکستان دیکھنا چاہتے تھے۔
خان صاحب کی کور سپورٹ وہی ہے جو 2013 کے انتخابات میں تھی۔ اگر پی ٹی آئی کا قافلہ اسی طرح چلتا رہا اور ساتھ میں شہباز شریف پرفارم کر گئے جس کے اچھے خاصے چانسز ہیں تو سابق وزیراعظم کے لیے آئندہ عام انتخابات کے نتائج 2013 سے مختلف نہیں ہوں گے۔
تحریک انصاف کے لیے ایک اور توجہ طلب پہلو میڈیا ہینڈلنگ بھی ہے۔ حقائق سے واقف جو صحافی نام نہاد امریکی سازش کو مسترد کر رہے ہیں انہیں آپ غدار قرار دے رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری خود صحافی رہ چکی ہیں لیکن ٹوئٹر پر صحافی فہد حسین کو انہوں نے بغیر کسی ثبوت کے امریکی سازش کا حصہ قرار دے دیا۔ یعنی آپ ہماری آواز بنیں تو محب وطن اور بصورت دیگر غدار۔
خان صاحب نوشتہ دیوار پڑھنے میں ناکام رہے ہیں ہم صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ اب یہ نوشتہ دیوار پڑھ لیں کہ میرے سارے مخالف غدار والے کھیل میں آپ ناکام ہو چکے ہیں اور یہ بیانیہ اب مزید نہیں چل سکتا۔
اسی طرح سینئیر صحافیوں حامد میر اور عاصمہ شیرازی کے گھروں کے باہر احتجاج کرنے کی منصوبہ بندی بھی انگریزی کے محاورے کی مصداق ہے کہ آپ گڑھے میں ہیں اور اسے مزید کھود رہے ہیں۔
اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ آپ نکالے جا چکے ہیں اور جس راہ پر آپ چل رہے ہیں وہ آپ کو اقتدار کی راہ داریوں سے مزید دور کر رہی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔