کیا پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے؟

جب ملک چلانے کا انحصار تجارت کی بجائے امداد اور قرضوں پر ہو تو قریبی دوست ممالک بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔

کولمبو میں 9 مئی 2022 کو سری لنکا کے سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم مہندا راجا پاکسے کی سرکاری رہائش گاہ کے قریب سکیورٹی اہلکاروں کی ایک گاڑی اور جلائی گئی بس کی تصویر۔ (اے ایف پی)

‎کل کا دن بہت مصروف تھا۔ پانچ مختلف شعبوں کے دوستوں سے الگ الگ ملاقات طے تھی۔ ان پانچ ملاقاتوں میں مجھ سے تین سوالات بار بار کیے گئے۔ کیا پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے؟ کیا حکومت پاکستان بھی ملک کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرنے جا رہی ہے؟ اور کیا اب پاکستانی عوام بھی سری لنکا کی عوام کی طرح اپنے حکمرانوں کے گھر جلانا شروع کر دے گی؟

یہ سوالات میرے لیے حیران کن تھے۔ میں نے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر انہیں جواب تو دے دیا۔ لیکن انہوں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کر گیا تو کیا ہو گا۔ کیا کوئی ایسی صورتحال ہے کہ پاکستان میں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا نہ ہو سکے۔

‎میں نے اس حوالے سے جاننے کے لیے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالرز رہ گئے ہیں۔ پانچ ارب ڈالرز کے قرض مئی میں ادا کرنے ہیں اور پانچ ارب ڈالرز کے قرض جون میں واجب الادا ہیں۔

اگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جلد طے نہ ہوئے تو خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے اور ملک میں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے مطالبات مان لے۔ نہ جانے سرکار کس بات کا انتظار کر رہی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان کو دو حکومتیں چلا رہی ہیں۔ ایک پاکستان میں اور دوسری لندن میں۔  نواز شریف نے  غریب ملک کے وزیراعظم کو چار دن سے لندن میں روک رکھا ہے۔ اور ملک میں ڈالر بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔

سری لنکا میں بھی ایک بھائی صدر اور دوسرا وزیراعظم تھا۔ وہاں بھی طاقت کا مرکز ایک نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ پاکستان میں پاور کی دو جگہ تقسیم سے کنفیوژن پیدا ہو رہی ہے اور فیصلوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔

‎اس حوالے سے مزید جاننے کے لیے میں نے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ملک کی معاشی حالت نازک ہو چکی ہے۔ مبینہ طور پر سعودی عرب نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔

حماد اظہر کے مطابق سعودی عرب نے پچھلے قرضے واپس مانگ لیے ہیں۔ چین نے بھی مزید قرض دینے اور قرضوں کی ادائیگی ملتوی کرنے کی بجائے چینی آئی پی پیز کے 300 ارب روپے واپس مانگ لیے ہیں۔ دونوں ممالک کا مطالبہ ہے کہ پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کریں۔ پھر ہی مزید قرض مل سکے گا۔

پاکستان اور سری لنکا کے حالات میں بہت مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ نہیں دی اور سارا زور درآمدات بڑھانے پر دیا گیا اور جب درآمدات پر پابندی لگائی تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔

پاکستان میں بھی درآمدات تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ ابھی بھی‎ غیر ضروری لگثری اشیا کی درآمدات تقریبا 15 ارب ڈالر ہیں۔ جن پر پابندی نہیں لگائی جا رہی۔ درآمدات کا حجم برآمدات کی نسبت 100 گنا سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ سری لنکا نے مہنگے قرض لے کر عوام کو سستا پیٹرول اور ڈیزل دیا۔ وقتی طور پر عوام خوش تو ہو گئے لیکن ملک دیوالیہ ہو گیا۔ پاکستان بھی عوام کو سستا ڈیزل اور پیٹرول فراہم کر کے 300 ارب کا نقصان کر چکا ہے۔ سری لنکا نے امریکہ اور آئی ایم ایف کی بجائے چین پر انحصار کیا اور وقت آنے پر چین نے مزید قرض دینے سے انکار کر دیا۔

پاکستان نے بھی چین پر ضرورت سے زیادہ انحصار کیا لیکن مبینہ طور پر مشکل وقت میں چین نے پاکستان کو مزید قرض نہیں دیا۔ تقریبا پچھلے پانچ سالوں سے سری لنکا نے ملک چلانے کے لیے زیادہ انحصار دوست ممالک کے قرضوں پر کیا تھا اور پاکستان میں بھی پچھلے چار سالوں میں لیے گئے قرض 70 سالوں میں لیے گئے قرضوں سے زیادہ ہیں۔

جب ملک چلانے کا انحصار تجارت کی بجائے امداد اور قرضوں پر ہو تو قریبی دوست ممالک بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

‎اس حوالے سے ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ معشیت کا گراف بتاتا ہے کہ سری لنکا ڈیفالٹ ہونے سے چند ماہ پہلے جس جگہ کھڑا تھا آج پاکستان بھی اسی جگہ کھڑا ہے۔ مسئلے کا حل پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات سے سبسڈی ہٹانے کی ضرورت ہے۔ گو کہ یہ ایک فیصلہ تمام مسائل کا حل نہیں ہے لیکن اس سے کافی حد تک دباؤ میں کمی آ سکے گی۔

آئی ایم ایف تقریباً ایک ارب ڈالرز جاری کرے گا۔ پاکستان کو اس وقت تقریبا 10 ارب ڈالرز کی مزید ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کے بعد تقریبا نو ارب ڈالرز کے قرض مختلف ممالک سے مل سکیں گے۔ اس کے علاوہ لگثری اشیا کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ اگر قرض مل بھی جائیں اور درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ نہ ہو تو پاکستان پانچ ماہ کے بعد دوبارہ آج کی صورتحال پر کھڑا ہو گا۔

‎تینوں ماہرین کا تجزیہ دراصل حکمرانوں کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ابھی بھی وقت ہے کہ سیاسی اختلاف بھلا کر میثاقِ معیشت پر کام کیا جائے۔ ملک کی تمام مقتدر قوتیں سب سے پہلے ملکی معاشی استحکام کے بارے میں مضبوط لائحہ عمل طے کریں۔ ملک کو دیوالیہ کرنے سے بہتر ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کا بوجھ عوام کو منتقل کریں۔

سیاسی نقصان اٹھانے سے اگر ملک بچ سکتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ اگر بروقت درست فیصلے نہ کیے گئے تو یہ عین ممکن ہے کہ پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کر جائے، حکومت پاکستان سرکاری سطح پر ملک کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردے اور پاکستانی عوام سری لنکن عوام کی طرح حکمرانوں کے گھروں پر حملہ آور ہو جائیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ