دھوبی گھاٹ کا میدان جہاں جناح سے لے کر عمران تک نے جلسہ کیا

عمران خان آج فیصل آباد کے تاریخی دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں جلسہ کرنے جا رہے ہیں، جہاں قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم محمد علی جناح اور قیام کے بعد محترمہ فاطمہ جناح سمیت دیگر سیاسی قائدین جلسوں سے خطاب کر چکے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناح کی دھوبی گھاٹ گراؤنڈ جلسے میں خطاب کے لیے لائل پور آمد کے موقع پر اپنی قیام گاہ پر مسلم لیگ کے مقامی قائدین کے ہمراہ گروپ فوٹو: (تصویر بشکریہ: اشرف اشعری)

فیصل آباد کی قدیم درس گاہ جی سی یونیورسٹی کے کمیونٹی کالج سے متصل دھوبی گھاٹ گراؤنڈ کا موجودہ نام اقبال پارک ہے لیکن یہ اب بھی اپنے پرانے نام سے ہی مشہور ہے۔

انگریز راج میں لائل پور کے نام سے بسائے گئے اس شہر کے تاریخی گھنٹہ گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس گراؤنڈ کے نام کی وجہ تسمیہ یہ بتائی جاتی ہے کہ کسی دور میں یہاں شہر کا سب سے بڑا دھوبی گھاٹ ہوا کرتا تھا۔

اس وقت دھوبی گھاٹ گراؤنڈ کے ایک حصے میں جانوروں کو پانی پلانے کے لیے حوض بنا ہوا تھا جبکہ دوسرے حصے میں کپڑے دھونے کے لیے دھوبی گھاٹ ہوتا تھا۔

بعدازاں جب شہر میں سرکاری عمارات کی تعمیر شروع ہوئی تو یہاں ایک طرف اینٹوں کا بھٹہ لگا دیا گیا اور پھر 1927 میں دھوبی گھاٹ اور اینٹوں کا بھٹہ ختم کر کے اس جگہ کو واٹر ورکس میں تبدیل کر کے تالاب کے اطراف کو باغ کی شکل دے کر شہریوں کی تفریح کے لیے وقف کر دیا گیا۔

قیام پاکستان سے قبل ہندو یہاں دسہرہ اور مسلمان عید کا تہوار مناتے تھے۔ اسی بنا پر تاریخ میں اسے ’دسہرہ گراؤنڈ‘ یا عید گرؤانڈ  کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

19ویں صد ی کی تیسری دہائی میں آزادی کی تحریک سے اٹھنے والی چنگاریوں نے شعلوں کی شکل اختیار کی تو یہ میدان سیاسی زور آزمائی کا دنگل بن گیا۔

دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں پہلا تاریخی اجتماع 1928 میں ہوا جب 28 سے 30 دسمبر تک یہاں ’کرتی کسان کانفرنس‘ منعقد  کی گئی اور اس میں ہندوستان بھر سے اہم کسان رہنما شریک ہوئے۔

1932 میں مہاتما گاندھی نے اس مقام پر تاریخی اجتماع سے خطاب کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب بھگت سنگھ  کو پھانسی ہوچکی تھی اور مقامی آبادی کا ایک بڑا حصہ بھگت سنگھ کی حمایت نہ کرنے پر گاندھی جی سے ناراض تھا۔

اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جب گاندھی جی نے اپنا خطاب شروع کیا تو مجمعے میں موجود لوگوں کی بڑی تعداد نے سیاہ پرچم لہراتے ہوئے بھگت سنگھ زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔

بعدازاں 1937 کے انتخابات کے سلسلے میں کانگریس کے رہنما اور بھارت کے اولین وزیر اعظم جواہر لال نہرو، کانگریس کے صدر سبھاش چندر بوس اور سردار پٹیل نے بھی دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں سیاسی اجتماعات سے خطاب کیا۔

اس حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ جواہر لال نہرو کی لائل پور آمد پر ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور انہیں سفید گھوڑے پر سوار کر کے ایک جلوس کی شکل میں جلسہ گاہ لایا گیا تھا۔

مسلم لیگ پنجاب کی طرف سے 1942 میں پہلی سالانہ صوبائی کانفرنس کے انعقاد کے لیے لائلپور کا انتخاب ہوا تو جلسے کا پنڈال دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں سجانے کا فیصلہ کیا گیا۔

یہ کانفرنس 17سے 19 نومبر تک جاری رہی جس میں شرکت کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح خصوصی طور پر لائل پور تشریف لائے۔

قائد اعظم پہلی مرتبہ لائل پور تشریف لا رہے تھے اس لیے لوگوں کا جوش وخروش دیدنی تھا۔

17 نومبر 1942 کی سہ پہر قائد اعظم، محترمہ فاطمہ جناح، خواجہ ناظم الدین، نواب افتخار حسین ممدوٹ کے ہمراہ ریل گاڑی کے ذریعے لائل پور پہنچے تو وزیر اعظم پنجاب سرسکندر حیات نے ریلوے سٹیشن پر ان کا استقبال کیا۔  

اس موقع پر مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے 100 گولے داغ کر سلامی پیش کی گئی اور مہمانوں کو ریلوے سٹیشن سے جلوس کی شکل میں 51 آرائشی دروازوں سے گزار کر لیاقت روڈ پر کرنل محمد حیات خان کی رہائشگاہ لایا گیا جہاں انہوں نے تین دن قیام کیا۔

اسی رات کو قائد اعظم نے مسلم لیگ کے سالانہ جلسے کا افتتاح کیا جبکہ صدارت کے فرائض خواجہ ناظم الدین نے ادا کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قائد اعظم نے اس موقع پر رومن اردو میں لکھی ہوئی طویل تقریر کی اور اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر کیا: ’ہم سب اس ملک میں آزادی اور عزت سے رہنا چاہتے ہیں۔ ہم ایسی حکومت کبھی قبول نہ کریں گے جس کا مقصد ہماری غلامی اور ہندو کی آزادی ہو۔‘

اس وقت کے اخبارات کی خبروں کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جلسہ لائل پور کی تاریخ کا عظیم اجتماع تھا جس میں 50 ہزار سے زائد لوگ شریک ہوئے۔

قیام پاکستان کے بعد محترمہ فاطمہ جناح، شورش کاشمیری، عطا اللہ شاہ بخاری، ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، بےنظیر بھٹو، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان اور مریم نواز اس تاریخی مقام پر جلسہ عام سے خطاب کر چکے ہیں۔ 

آزادی کے بعد 1960 کی دہائی کے اختتام تک دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں کئی سال پنجابی مشاعروں کا بھی انعقاد ہوتا رہا۔ ان مشاعروں کا اہتمام اس وقت کی مشہور ادبی تنظیموں ’پنجابی بزم اخلاق‘ اور ’پنجابی بزم ادب‘ کی طرف سے کیا جاتا تھا۔ 

چند عشرے قبل دھوبی گھاٹ گراؤنڈ کے وسط میں دیوار بنا کر آدھے گراؤنڈ کو پبلک پارک جبکہ آدھے گراؤنڈ کو جلسہ گاہ کے طور پر وقف کر دیا گیا تھا۔

تاہم 2011 میں جب تحریک انصاف نے مینار پاکستان پر اپنا پہلا بڑا سیاسی اجتماع کیا تو اس کا جواب دینے کے لیے مسلم لیگ ن نے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ کا انتخاب کیا۔

اس جلسے میں حاضرین کی گنجائش بڑھانے کے لیے مسلم لیگ ن کی اس وقت کی صوبائی حکومت نے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ سے ملحق پارک کی دیوار ختم کروا کے اسے بھی دوبارہ جلسہ گاہ کا حصہ بنا دیا تھا۔

یہ جلسہ اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں لوگوں کی بھرپور شرکت کے باعث سیاسی مبصرین کے یہ دعوے دم توڑ گئے تھے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت کم ہو گئی ہے۔

جولائی 2018 کے عام انتخابات کے بعد اس جلسہ گاہ میں سب سے بڑا اجتماع گذشتہ سال 16 اکتوبر کو ہوا تھا۔

اس جلسے میں مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے علاوہ چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والی تقریباً تمام اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین نے خطاب کیا تھا۔

ان میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، محمود اچکزئی، سینیٹر ساجد میر، شاہ اویس نورانی و دیگر رہنما شامل تھے۔

اب دھوبی گھاٹ گراؤنڈ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی دیوار تو موجود نہیں ہے لیکن اس کے آدھے حصے میں اب بھی گھاس کے میدان، جاگنگ ٹریک اور بچوں کے جھولے لگے ہوئے ہیں اور زیادہ تر سیاسی جماعتیں اپنے جلسے کے پنڈال کو دھوبی گھاٹ گراؤنڈ کے اس حصے تک ہی محدود رکھتی ہیں جو جلسوں کے لیے مختص ہے۔

اس گراؤنڈ کی مجموعی لمبائی 664.63 فٹ اور چوڑائی 413.49 فٹ ہے جبکہ مجموعی رقبہ تقریباً 82 ہزار 457 مربعہ فٹ ہے۔

جلسوں کے لیے مختص گراؤنڈ کے شمال مغربی حصے کی جانب تقریباً 12 فٹ اونچا پختہ چبوترہ موجود ہے لیکن تحریک انصاف نے 15 مئی 2022 کے جلسے کے لیے 15 کنٹینرز کی مدد سے تقریباً 30 فٹ بلند اور 80 فٹ طویل سٹیج تیار کیا ہے۔

علاوہ ازیں سٹیج کے سامنے تقریباً 400 فٹ چوڑی اور 100 فٹ طویل جگہ کو خاردار تاریں اور لوہے کی چادریں لگا کر وی آئی پی انکلوژر بنایا گیا ہے اور اس سے پیچھے تقریباً دو سے ڈھائی سو مربعہ فٹ جگہ میں کرسیاں لگا کر کارکنوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 15 مئی کوجلسہ عام کے لیے  پہلی مرتبہ فیصل آباد آ رہے ہیں۔

عمران خان کی فیصل آباد آمد اس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے کہ ان کے خلاف کامیاب ہونے والی تحریک عدم اعتماد سے پہلے تحریک انصاف کے تین مقامی اراکین اسمبلی راجہ ریاض، نواب شیر وسیر اور چوہدری عاصم نذیر ان کا ساتھ چھوڑ کر سندھ ہاؤس منتقل ہو گئے تھے جبکہ سابق صوبائی وزیر اجمل چیمہ جہانگیر ترین گروپ میں چلے گئے تھے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنی تقریر کے مستقل موضوعات یعنی امریکی سازش، امپورٹڈ حکومت اور مبینہ طور پر نیوٹرل ہونے والے اداروں کے علاوہ ان منحرف اراکین اسمبلی سے متعلق عمران خان فیصل آباد میں اپنے چاہنے والوں کو کیا بیانیہ دیتے ہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے نو میں سے چھ اور صوبائی اسمبلی کی 21 میں سے نو نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ دیگر نشستوں پر مسلم لیگ ن کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔

فیصل آباد کی سیاسی تاریخ میں اگر کوئی سیاسی جماعت دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں جلسہ نہ کرسکے تو سمجھا جاتا ہے کہ اس کی عوامی مقبولیت کم ہے۔

اس لحاظ سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف نے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں جلسے کا اعلان کر کےعوامی مقبولیت ثابت کرنے کا پہلا مرحلہ طے کر لیا ہے۔

تاہم اس جلسے کی حتمی کامیابی اس کے حاضرین کی تعداد اور جوش وخروش  سے ہی طے ہو سکے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان