چین مخالف اتحاد ’کواڈ‘ پاکستان کے لیے معاشی مسائل کا باعث بن سکتا ہے؟

کواڈ پاکستان کے لیے دو حوالوں سے اہم ہے، جن میں چار رکنی اتحاد کا چین مخالف ہونے کے علاوہ اس میں بھارت کی موجودگی ہیں۔

24 مئی 2022 کی اس تصویر میں جاپان کے شہر ٹوکیو میں کواڈ ممالک کے سربراہان امریکی صدر جو بائیڈن، جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیدا (دائیں سے دوسرے)، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی ایلبینس کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

بین الااقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ، بھارت، جاپان اور آسٹریلیا کا کواڈ (کواڈرلیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ) کے نام سے جانا جانے والا اتحاد بنیادی طور پر چین مخالف ہونے کے باعث پاکستان کے لیے بلاواسطہ سکیورٹی اور معاشی مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

 بین الاقوامی امور کے ماہرین چار انڈوپیسفک ممالک کے اتحاد میں بھارت کی موجودگی کو پاکستان کے لیے تشویش کی دوسری وجہ قرار دیتے ہیں۔

سابق پاکستانی سفیر اور تھینک ٹنک انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجیک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کے سربراہ اعزاز چوہدری کا کہنا تھا سی پیک پر اعتراضات اٹھانے والے پاکستان چین تعلقات کے علاوہ اس پراجیکٹ کو بھی کمزور کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’معاشی طور پر مضبوط پاکستان، کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہوگا۔‘

بین الاقوامی امور کے استاد پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کے خیال میں کواڈ جتنا مضبوط ہوگا پاکستان کے لیے معاشی اور سکیورٹی مسائل میں اضافے کا باعث بنے گا۔

کواڈ ہے کیا؟

کواڈ یا کواڈرلیٹرل سکیورٹی ڈائیلاگ انڈوپیسفک کے کنارے پڑے چار ممالک، امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے درمیان ایک غیررسمی سٹریٹجک فورم ہے، جس کا خیال سب سے پہلے 2007 میں اس وقت کے جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے پیش کیا تھا۔

درحقیقت کواڈ کا خیال 2004 میں سمندری طوفان سونامی کے بعد آیا، جب بھارت نے بحرالکاہل میں اپنے علاقوں اور پڑوسی ممالک کے لیے امدادی کارروائیاں شروع کیں، جن میں  بعد ازاں امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا بھی شامل ہو گئے۔

چین کے احتجاج اور تنقید کے باعث آسٹریلیا نے کواڈ سے دستبرداری اختیار کر لی، تاہم 2010 میں واشنگٹن اور سڈنی کے درمیان فوجی تعاون کے دوبارہ شروع ہونے کے نتیجے میں آسٹریلیا کو کواڈ کے زیر اہتمام بحری مشقوں میں شامل کیا گیا، اور یوں اس کی کواڈ میں واپسی ہوئی۔

سال 2012 میں جاپانی وزیر اعظم شنزو آبے نے ہی امریکہ، جاپان، بھارت اور آسٹریلیا پر مشتمل ایشیا کے 'ڈیموکریٹک سکیورٹی ڈائمنڈ' کے خیال پر زور دیا، اور سال 2017 میں کواڈ کے تحت فلپائن میں پہلی باضابطہ بات چیت ہوئی۔

کواڈ کا بظاہر مقصد انڈوپیسفک میں سٹریٹجک سمندری راستوں کو فوجی یا سیاسی اثر سے پاک رکھنا ہے۔

کواڈ کا بنیادی مقاصد میں قوانین پر مبنی عالمی ترتیب، نیویگیشن کی آزادی اور ایک آزاد تجارتی نظام کو محفوظ بنانے کے علاوہ انڈوپسفک ممالک کے لیے متبادل قرض کی مالی اعانت پیش کرنا بتائے جاتے ہیں۔

کواڈ رہنما عصری عالمی مسائل جیسے کہ اہم اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، کنیکٹیویٹی اور انفراسٹرکچر، سائبر سکیورٹی، سمندری تحفظ، انسانی امداد، آفات سے نجات، موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض اور تعلیم پر تبادلہ خیال کرتے رہے ہیں۔

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں گذشتہ منگل کو کواڈ کا سربراہی اجلاس ہوا جس میں جاپانی وزیر اعظم فیومیو کیشیدا نے اتحاد کی جانب سے ایشیا پیسفک خطے میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں کم از کم 50 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔

انڈوپیسفک کیا ہے؟

انڈوپیسفک، جسے بعض اوقات انڈو ویسٹ پیسفک یا انڈو پیسفک ایشیا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کرہ ارض پر پائے جانے والے سمندروں کا وہ  حصہ ہے جو بحر ہند کے ٹراپیکل پانیوں، مغربی اور وسطی بحر الکاہل اور ان دونوں کو انڈنیشیا کے عمومی علاقے میں ملانے والے سمندروں پر مشتمل ہے۔

تاہم انڈوپیسفک میں بحر ہند اور بحر الکاہل کے معتدل اور قطبی علاقے اور ٹراپیکل مشرقی بحر الکاہل کے علاقے شامل نہیں ہیں۔

کواڈ کے چارو رکن ممالک میں طرز حکومت جمہوری اور ان کا سمندر کنارے ہونے کے باعث اس اتحاد کو سمندری جمہورتیوں کا اتحاد بھی سمجھا جاتا ہے۔

دائرے کے اندر کا علاقہ انڈوپیسفک ریجن ہے۔ (تصویر گلوبل ویلج سپیس)

 کواڈ، ایک چین مخالفت اتحاد؟

انڈوپیسفک میں چین ایک بڑا ملک ہے، جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کے ذریعے خطے اور دنیا میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور امریکہ کے لیے ایک مستقل درد سر بنتا جا رہا ہے۔

بی آر آئی چین کا ایسا منصوبہ ہے جس کے مقاصد میں بیجنگ کا بین الاقوامی تجارت محفوظ تجارتی راستے بنانے، چینی کمپنیوں کے لیے بیرون ملک منڈی کی فراہمی، اور چین کے وسطی صوبوں کی معیشتوں کو متحرک کرنے کی کوششیں شامل ہیں۔ 

چین ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے کواڈ کو ایشیائی نیٹو قرار دیتے ہوئے اس کی سفارتی طور پر مخالفت کی تھی اور بیجنگ ہی کی مخالفت کے باعث آسٹریلیا ابتدا میں اتحاد سے علیحدگی اختیار کر گیا تھا۔

دوسری طرف چین بھارت چپقلش بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے اور کواڈ میں نئی دہلی کی موجودگی بھی اسے چین مخالف ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

ٹوکیو میں کواڈ کے اجلاس میں چاروں رکن ممالک نے چین کے تائیون پر ممکنہ حملے کے پیش نظر طاقت سے سٹیٹس کو کو تبدیل کرنے کی کوششوں کے خلاف خبردار کیا۔

ایک مشترکہ بیان میں رکن ممالک نے خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت کا براہ راست ذکر کیے بغیر واضح کیا کہ انہیں کہا سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ 

کواڈ کے بیان میں یوکرین کے تنازع کا بھی حوالہ دیا گیا ہے، تاہم بھارت کا روسی حملے کی مذمت سے گریز کے باعث، اس سلسلے میں مشترکہ موقف اختیار نہیں کیا گیا۔ 

پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کے مطابق کواڈ بغیر کسی شک و شبہے کے ایک چین مخالف اتحاد ہے، جس کا مقصد خطے میں چین کے اثر رسوخ پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’دراصل امریکہ چین کے خلاف اپنے اہداف کے حصول کی غرض سے بھارت اور دوسرے ممالک کو استعمال کر رہا ہے۔‘

سال 2021 میں کواڈ کے ایک اعلامیے میں ’ایک آزاد اور کھلے انڈوپیسفک کا مشترکہ وژن‘ پیش یا گیا، اور مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین میں ایک مخصوص اصول پر مبنی میری ٹائم آرڈر جاری کیا گیا، جس کا مقصد کواڈ رکن ممالک کا چینی سمندری دعوؤں کا مقابلہ کرنا تھا۔

چین نے کواڈ پلان کی بھرپور مخالفت کی۔ 

تھنک ٹینک ویژن سٹریٹیجیک انسٹیٹیوٹ (ایس وی آئی) سے منسلک محقق ظفر اقبال یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ایسے اتحادوں کے مقاصد کو بے ضرر رکھا جاتا ہے، تاہم حقیقتا ان کا مقصد ایک مخصوص ہدف ہی ہوتا ہے۔

’اور کواڈ کا ہدف بغیر کسی شک و شبہے کے چین کی مخالفت ہے۔‘

کواڈ اور پاکستان

ظفر اقبال یوسفزئی کا کہنا تھا کہ کواڈ پاکستان کے لیے دو حوالوں سے اہم ہے، جن میں چار رکنی اتحاد کا چین مخالف ہونے کے علاوہ اس میں بھارت کی موجودگی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان ’ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہرے‘ تعلقات موجود ہیں، جبکہ بھارت اور پاکستان دائمی دشمنی میں الجھے ہوئے ہیں۔

’دوسری طرف امریکہ اور بھارت خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو بھی شک اور ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘

چین نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تحت پاکستان میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا، جس کے تحت توانائی، معیشت، ٹرانسپورٹ، تجارت اور دوسرے کئی شعبوں میں کام جاری ہے۔

سابق سفیر اور انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد کے سربراہ اعزاز چوہدری کے خیال میں سی پیک بی آر آئی کا فلیگ شپ پراجیکٹ ہے اور کواڈ میں شامل چین مخالف عناصر چین پاکستان تعلقات اور سی پیک کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف بلوچستان میں بین الاقوامی تعلقات کے استاد دوست محمد کا کہنا تھا کہ امریکہ بحرہ ہند میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے، اور ایسی کسی کوشش سے چین کا متاثر ہونا لازمی ہے، جو بیجنگ کے قریب ہونے کے باعث پاکستان کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان سے کولڈ وار والا کام لینا چاہتا ہے، اور اس مرتبہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ اسلام آباد بیجنگ کے مفادات کے خلاف کام کرے۔

’لیکن پاکستان کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے، کیونکہ پاک چین تعلقات پاکستانی معیشت کے لیے بہت ضروری ہیں۔‘

پروفیسر ڈاکٹر رفعت حسین کے خیال میں کواڈ جتنا مضبوط ہوگا پاکستان کے مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ اس کا براہ راست اثر اسلام آباد کی سکیورٹی پالیسی پر پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خارجہ امور کے ماہر ڈاکٹر محمد اکرم ظہیر ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ بھارت کے خلاف توازن قائم کرنے کی پاکستان کی کوششوں میں چین ایک اہم ستون رہا ہے۔ 

پاکستانی مفادات کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟

اعزاز چوہدری کے خیال میں پاکستان کو جیو اکنامکس پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پاکستانی عوام کی معاشی بہبود کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے اپنے جغرافیے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ معاشی طور پر مضبوط پاکستان کسی بھی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہو سکتا ہے۔

دوست محمد کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ اندرون طور پر استحکام ہی پاکستان کو کسی بین الاقوامی سازش یا مخالفت سے بچا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام کی کوششوں کو تیز کرنا ہو گا، جس کے لیے سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے کردار اہمیت کے حامل ہیں۔

ظفر اقبال یوسفزئی کے خیال میں پاکستان دنیا میں کسی امریکہ مخالف اتحاد میں شامل ہو کر بھی اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔

اس سلسلے میں انہوں نے روس اور ایران کا ذکر کیا، جو چین اور پاکستان کے ساتھ مل کر ایک پر اثر بلاک کی شکل میں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد اکرم ظہیر نے اس سلسلے میں پاکستان، روس، چین، ایران اور ترکی کے درمیان اتحاد کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’یہ وہ ملک ہیں جو امریکہ اور بھارت مخالف ایجنڈے پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا