آنسو گیس: جنگ میں ممنوع، امن میں بے دریغ

آنسو گیس کے استعمال کے حوالے سے عالمی انسانی حقوق کی ہدایات کئی دہائیوں سے موجود ہیں لیکن اس کے غلط اور بےدریغ استعمال کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

راولپنڈی میں 25 مئی 2022 کو پاکستان تحریک انصاف کے ایک مظاہرے پر پولیس کی آنسو گیس شیلنگ (اے ایف پی)

جنگ ہو یا تصادم، بین الاقوامی تصادم ہو یا اندوری تصادم، فریقین کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا مہلک وار کیا جا سکتا ہے کیا جائے تاکہ مسلح تصادم میں اپنا پلڑا بھاری کیا جا سکے۔ لیکن عالمی جنگی قوانین میں بھی آنسو گیس کا استعمال ممنوع ہے۔

آنسو گیس کو ممنوع قرار دینے کی سب سے پہلی کوشش لیگ آف نیشنز، جو موجودہ اقوام متحدہ ہے، نے کی تھی جب جنیوا پروٹوکول 1925 میں متعارف کرایا گیا۔ تاہم 1925 کی ٹریٹی میں آنسو گیس کے ممنوع ہونے کے حوالے سے واضح طور پر نہیں کہا گیا تھا اور اسی لیے امریکہ نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ویت نام میں وسیع پیمانے پر آنسو گیس کا استعمال کیا۔

کیمیکل ویپنز کنونشن 1925 ٹریٹی سے زیادہ واضح تھی لیکن اس میں کہا گیا کہ آنسو گیس کو ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتی ہے۔  

جنگ یا مسلح تصادم میں آنسو گیس کے استعمال کو ممنوع قرار دینے کا جواز یہ دیا جاتا ہے کہ اس کے استعمال سے جنگجو اور عام شہری دونوں ہی متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن اگر یہی توجیح ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کی جانے والی آنسو گیس پر لاگو کی جائے تو آنسو گیس تو ہجوم میں شامل عمر رسیدہ، خواتین اور بچوں پر بھی اتنی ہی اثر انداز ہوتی ہے جتنی باقی لوگوں پر ہوتی ہے۔ یا اس سے ایک شخص جو محض اس جگہ پر کھڑا ہے یا اس مظاہرے والی جگہ کے اطراف میں رہتا ہے وہ بھی اتنا ہی متاثر ہو گا جتنا کہ کہ مظاہرے میں شامل کوئی فرد ہو گا۔

ماضی قریب میں مختلف ممالک میں لسانی ناانصافیوں، پولیس کی جانب سے تشدد اور سماجی ناانصافیوں کے لیے کیے جانے والے مظاہروں پر آنسو گیس کا استعمال بہت زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ وہ چاہے امریکہ میں ہو جہاں جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد مختلف امریکی ریاستوں میں مظاہرے ہوں یا ہانگ کانگ، ترکی، فرانس، چلی یا پھر پاکستان اور بھارت مظاہرین کو منتشر کرنے اور مظاہروں کو ختم کرانے کے لیے آنسو گیس پولیس یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کا پسندیدہ ہتھیار بن چکا ہے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے یا پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا استعمال تو محدود علاقے میں اکٹھے ہونے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن آنسو گیس یہ نہیں دیکھتی کہ آیا ایک شخص مظاہرے میں پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہے یا پرامن طریقے سے احتجاج کر رہا ہے یا پھر محض اس جگہ پر کھڑا ہے اور مظاہروں کا حصہ نہیں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ اس حوالے سے بین الاقوامی ہدایات موجود ہیں لیکن اس پر عملدرآمد واجب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہدایات اتنی مبہم اور غیر کارگر ہیں کہ ان ہدایات کی خلاف ورزی پر کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا رہتا ہے۔

عالمی ہدایات کے مطابق آنسو گیس کو سیدھا مظاہرین کی جانب فائر نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو 45 ڈگری پر ہوا میں فائر کرنا ہوتا ہے۔ لیکن حال ہی میں پاکستان میں تحریک انصاف کے مارچ کو روکنے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں میں آنسو گیس کا جو استعمال کیا گیا اس میں کئی ویڈیوز اور تصاویر ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار آنسو گیس کو ہوا میں نہیں بلکہ سیدھا مظاہرین پر فائر کر رہے ہیں۔

آنسو گیس کے شیل ایک خطرناک ہتھیار ہے جو اگر سیدھا مظاہرین کی جانب فائر کیا جائے تو لگنے سے شدید چوٹ لگ سکتی ہے اور موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ عراق میں مظاہرین پر آنسو گیس کے استعمال میں سیدھا مظاہرین پر آنسو گیس فائر کی گئی جس کے نتیجے میں لوگوں کے سروں پر شیل لگا اور اموات واقع ہوئیں۔

آنسو گیس کے استعمال کے حوالے سے عالمی انسانی حقوق کی ہدایات کئی دہائیوں سے موجود ہیں لیکن اس کے غلط اور بےدریغ استعمال کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی جانب سے تازہ ترین ہدایات کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے آنسو گیس کے استعمال پر اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ قانونی، ضرورت اور تناسب کے اصولوں کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ان ہدایات کے مطابق آنسو گیس کا استعمال مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آخری حربہ ہونا چاہیے اور آنسو گیس کے استعمال سے قبل مظاہرین کو متنبہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ ان کو ایک موقع دیا جائے کہ وہ منتشر ہو جائیں۔

جیسے تفریق کے اصول کے تحت ملسح تصادم میں آنسو گیس کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح تناسب کے اصول کے حوالے سے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 2019 میں ہانگ کانگ میں مظاہروں کے دوران چھ ماہ میں 10 ہزار آنس گیس کے شیل فائر کیے گئے۔ اسی طرح امریکہ میں جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد مظاہروں کو منتشر کرنے کے لیے امریکہ کی ایک سو سے زاید قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔

ساٹھ اور ستر کی دہائی کے بعد اس تھوڑے سے وقت میں امریکہ میں سب سے زیادہ آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں افراد جو ایک پرامن مظاہرے میں حصہ لینے کے لیے گئے تھے ان کو ایک دم سے آنسو گیس کا سامنا کرنا پڑا جو انسان کو ہلا دینے کے لیے کافی ہوتا ہے اور اس سے اس میں مزید غصہ بڑھتا ہے۔

آنسو گیس ایک یا دو ہفتوں کے لیے مظاہرین کو منتشر کر دے گی لیکن یہ مظاہرین سالوں تک حیرت اور غصے میں رہیں گے۔ اور یہی حیرت اور غصہ مظاہروں میں جانے والے عام سے انسان کو ایکٹوسٹ بنا دیتا ہے۔ 

بہت سے مظاہرین کے لیے آنسو گیس کا استعمال پرتشدد واقعے کا پہلا واقعہ ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پہلی بار ہو کہ ان کو احساس ہو کہ ان ہی کے ملک کی پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے ساتھ حقارت بھرا اور کیڑے مکوڑوں کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں۔ اور یہ پرامن مظاہرین کی جانب سے پرتشدد کارروائی کرنے کی وجہ بنتے ہیں۔

یہ سمجھنے کے لیے راکٹ سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ پولیس کی جانب سے جارحیت ہی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ بنتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ