حیدرآباد: ڈیئل داس کلب کو دوبارہ سیٹھ ڈیئل کی ضرورت

کلب ایک بار پھر شائد اپنے قیام کے بعد حالیہ سالوں میں مالی بحران کا شکار ہے اور اسے مناسب طریقے سے چلانے اور اخراجات برداشت کرنے کے لیے ایک بار پھر کسی سیٹھ ڈیئل داس کی ضرورت ہے۔

اس کلب کے لیے حیدرآباد کے بعض شہریوں نے 1922 میں بلدیہ سے باضابطہ طور پر اس وقت کی سرکاری قیمت ادا کر کے زمین حاصل کی تھی(تصویر: اکرم شاہد)

حیدرآباد کا ڈیئل داس کلب (ڈیعل صحیح نام ہے) کے قیام کو 2022 میں 100 سال ہو گئے ہیں۔

عمر کوٹ کے معمر ڈاکٹرہر چند رائے نے حیدر آباد میں طب کی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ حیدرآباد سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے کم از کم دو موقعوں پر راقم کی تصحیح کی تھی کہ دیال داس نہیں بلکہ ڈیئل داس ہے۔

اس کلب کے لیے حیدرآباد کے بعض شہریوں نے 1922 میں بلدیہ سے باضابطہ طور پر اس وقت کی سرکاری قیمت ادا کر کے زمین حاصل کی تھی۔ اس زمین کے ایک طرف ڈسٹرکٹ کورٹ کی پر شکوہ عمارت موجود ہے اور سڑک کے دوسر ی طرف کلکٹر کا دفتر اور رہائش گاہ جو ڈپٹی کمشنر بھی کہلایا گیا۔

یہ 1910 میں قائم ہوا تھا۔ حیدرآباد میں چھاﺅنی 1885میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے بعد جمخانہ 1897 میں قائم کیا گیا تھا۔ جمخانہ فوجی افسران کے لیے مخصوص تھا جس میں سولین کو داخلہ ملتا تھا نہ رکنیت۔

شہریوں کے ایک گروہ نے جمخانہ طرز پر شہریوں کی تفریح کے لیے کوئی مناسب جگہ قائم کرنا مقصود تھا۔ ’حیدرآباد کلب‘ کے نام سے زمین کی درخواست بلدیہ میں جمع کرائی گئی اور بلدیہ سے 88 ہزار 840 مربع فٹ زمین کی منظوری حاصل کی گئی اور بلدیہ کے حکام نے فیصلہ کیا کہ زمین کی لیز کی رقم ایک رو پیہ سالانہ حیدرآباد کلب ایسوسی ایشن ادا کرنے کی پابند ہوگی۔

زمین 10جولائی 1920 کو 99 سال کے پٹہ پر دی گئی تھی۔ حیدرآباد کلب کا قیام کا بنیادی مقصد تھا کہ جمخانہ میں سولین کو داخلہ نہیں دیا جاتا تھا اس لیے سولین کے لیے جمخانہ بنایا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلدیہ نے مختلف شرائط پر زمین لیز پر دے دی۔ اس میں ایک شرظ یہ بھی تھی کہ کلب میں کسی قسم کی سیاسی کارروائی اور بیٹھک نہیں ہوگی۔ لیز کی رقم آج تو برائے نام لگتی ہے لیکن 1922 میں تو حیثیت رکھتی تھی۔

حیدرآباد کلب کے کرتا دھرتاﺅں سے کلب کی چار دیواری اور عمارت کی تعمیر نہیں ہو پارہی تھی حالانکہ اراکین بنائے جاچکے تھے لیکن ان کی ماہانہ فیس سے کلب چلانا ہی مشکل تھا۔

یہ کلب اس لحاظ سے اپنی طرز ہی کا ہے کہ ملک بھر میں کوئی غیر سرکاری نجی کلب ایسا نہیں ہے جہاں آراکین سے نہایت معمولی ماہانہ فیس وصول کی جاتی ہو۔

اس زمانے میں جب پیسوں کی اشد ضرور ت تھی، سیٹھ ڈیئل داس مول چند ایڈوانی سامنے آئے۔ وہ ایک بڑے تاجر تھے۔ وہ کلب کی مالی مدد کرنے آگے بڑھے لیکن انہوں نے 30 ستمبر 1921 کو جو معاہدہ کیا اس میں تحریر کیا گیا کہ حیدرآباد کلب کا نام ’سیٹھ ڈیئل داس مول چند‘ رکھا جائے گا اور اسے کبھی بھی تبدیل نہیں کیا جائے گا۔

سیٹھ نے معاہدہ کے مطابق سیٹھ جی کلب کو 20 ہزار روپے کا چندہ دیں گے جس کی پہلی قسط پانچ ہزار روپے معاہدہ پر دستخط کے وقت ادا کر دی گئی۔ اور بقایا رقم کے بارے میں طے کیا گیا کہ وہ قسطوں میں ادا کی جائے گی۔

معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا تھا کہ سیٹھ صاحب کے نامزد کردہ دو افراد کو کلب کی منیجنگ کمیٹی میں رکھا جائے اور کلب میں جوا نہیں کھیلا جائے گا اور کسی قسم کی بھی شراب استعمال نہیں کی جائے گی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کلب میں انتظامی کمیٹی ان شرائط کی پاسداری نہیں کرا پاتی ہے۔ البتہ سیٹھ ڈیئل داس مول چند کے ایک بیٹے نارائن ڈیعل داس نے کلب کے باغیچہ میں ایک فوارہ تعمیر کرایا جس پر انہوں نے اپنے نام کی تختی نصب کرائی۔

بعض اراکین نے قیام پاکستان کے سالوں بعد کلب کا نام دوبارہ حیدرآباد کلب رکھنے کی تجویز پر تحریک چلائی تھی۔

اس تحریک کے خلاف بعض افراد نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ فیروز نانا اس وقت ڈسٹرکٹ جج ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے نام تبدیل کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔

کلب کے اراکین میں شہر کی نامور شخصیات شامل رہی ہیں۔ مغربی پاکستان کے وزیر قانون اللہ بچایو اخوند، حکومت سندھ کے وزیر اور حیدرآباد کے میئر سید احد یوسف، ایوان صنعت و تجارت کے سابق صدر سیٹھ محمد امین ، ممتاز زمیندار نثار میمن، مرحوم محمد حسین تالپور عرف مولانا ہپی وغیرہ وغیرہ صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔

کلب ایک بار پھر شائد اپنے قیام کے بعد حالیہ سالوں میں مالی بحران کا شکار ہے اور اسے مناسب طریقے سے چلانے اور اخراجات برداشت کرنے کے لیے ایک بار پھر کسی سیٹھ ڈیئل داس کی ضرورت ہے۔

کلب انتظامیہ نے مالی سہولتوں کے لیے یہ راستہ تلاش کیا تھا کہ کلب کے دائیں اور بائیں طرف موجود بڑے میدانوں کو شادیوں کے لیے استعمال کے لیے کرایہ پر دینا شروع کر دیا تھا جس کی وجہ سے مالی آسودگی تھی۔

ملازمین کو وقت پر تنخواہیں مل جایا کرتی تھیں اور دیگر ضروریات خصوصا بجلی کا بل و دیگر ضروریات پوری ہو جایا کرتی تھیں۔ کلب کے ایک رکن نے یہ اعتراض کیا کہ کلب چوں کہ ہیری ٹیج قرار دیا گیا ہے اس لیے اس کی حدود میں تجارتی سرگرمیاں نہیں کی جا سکتی ہیں۔

عدالت نے اس بنیاد کو منظور کیا اور شادیوں کی تقریبات کو روک دیا گیا۔ کلب ایک بار پھر شدید مالی خسارہ کا شکار ہو گیا ہے۔ کلب کی رکنیت کی ماہانہ فیس 600 روپے ہے جو اراکین کی بڑی تعداد انتخابات کے موقع پر ہی جمع کراتی ہے۔ مالی مشکلات کے پیش نظر بڑے لوگوں کے کلب کے چھوٹے ملازمین کی تنخواہیں بھی مایوس کن ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ