پی ٹی آئی ارکین کا سپیکر سے ملاقات پر انکار: آگے کیا ہوگا؟

تحریک انصاف کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی کا موقف ہے کہ ان کے استعفے پہلے ہی منظور ہوچکے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور دیگر مرکزی رہنما 26 مئی 2022 کو اسلام آباد میں ایک ریلی میں شریک ہیں (تصویر: اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے منگل کو فیصلہ کیا ہے کہ اس کے اراکین قومی اسمبلی استعفوں کے معاملے پر سپیکر کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔

گذشتہ روز سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے استعفی دینے والے پی ٹی آئی کے اراکین کو استعفوں کی تصدیق کے لیے چھ جون 2022 کو طلب کیا تھا۔

تحریک انصاف کے مستعفی اراکین قومی اسمبلی کا موقف ہے کہ ان کے استعفے پہلے ہی منظور ہوچکے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ تحریک انصاف کا کوئی رکن سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے پیش نہیں ہوگا۔

’ہمارے استعفوں پر پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے اور قاسم سوری قائم مقام سپیکر کی حیثیت سے پی ٹی آئی کے تمام ارکان کے استعفے منظور کر چکے ہیں۔‘

سابق وزیراعظم عمران خان بھی اپنے ایک بیان میں واضح کر چکے ہیں کہ استعفے واپس نہیں لیے جائیں گے اور نہ ہی اسمبلیوں میں بیٹھیں گے۔

قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ کا موقف

قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ کے ایک اعلی اہلکار نے پی ٹی آئی کے رہنماوں کے استعفوں کے پہلے سے منظور ہونے کے بیان کو مسترد کردیا ہے۔

حکام کے مطابق اراکین کے استعفوں کا فیصلہ ابھی ہونا ہے اور اس کے لیے مستعفی ہونے والے اراکین سے تصدیق کرنا لازم ہے۔

 آگے کیا ہوگا؟

قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ کے مطابق 10 جون تک مستعفی ہونے والے تمام اراکین کی سپیکر آفس آمد اور استعفوں کی تصدیق کے لیے انتظار کیا جائے گا۔

حکم کے مطابق: ’سپیکر خود یا سیکریٹیریٹ بھی ارکان سے استعفوں کی تصدیق کر سکتا ہے۔ اگر 10 جون تک ارکان سپیکر کے روبرو پیش نہیں ہوتے تو سپیکر آگے کا لائحہ عمل سامنے لائیں گے۔‘

سیکریٹیریٹ کے مطابق اگر 10 جون تک ارکان پیش نہیں ہوتے تو سپیکر استعفوں کا ایک بار پھر جائزہ لیں گے اور تمام استعفوں کا پیٹرن اور دستخطوں کو دوبارہ میچ کیا جائے گا۔

اعلی اہلکار کے مطابق: ’اس دوران جو استعفے درست سمجھے گئے اور اگر سپیکر مطمئن ہوئے تو وہ استعفے منظور کرلیے جائیں گے اور اگر سپیکر مطمئن نہیں ہوتے تو کچھ استعفے مسترد بھی کیے جا سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکام کے مطابق: ’سپیکر قومی اسمبلی کی یہ صوابدید ہے کہ اگر وہ مطمئن ہیں کہ ارکان نے کسی دباو میں آکر نہیں بلکہ اپنی مرضی سے استعفے دیے ہیں تو وہ استعفے تصدیق کیے بغیر بھی منظور کر سکتے ہیں۔‘

قوانین کیا کہتے ہیں؟

قومی اسمبلی میں کارروائی اور طریقہ کار کے قائدہ 43، جو نشست سے استعفی سے متعلق ہے، کی شق اے کے مطابق رکن اپنے ہاتھ سے لکھا گیا استعفیٰ سپیکر کو ذاتی حیثیت یا کسی کے ذریعے بھیجتا ہے اور یہ اطلاع دیتا ہے کہ استعفی رضاکارانہ طور پر دیا گیا ہے اور اصلی ہے۔

سپیکر مطمئن ہے کہ استعفی اصل ہے اور مرضی سے دیا گیا ہے تو سیکریٹری قومی اسمبلی نوٹیفیکیشن جاری کرکے الیکشن کمیشن کو کاپی بھجوائیں گے۔

سینیئر صحافی اعجاز احمد نے انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ آئین میں پہلے رکن اسمبلی کے استعفے کے بارے میں اتنی وضاحت موجود نہیں تھی لیکن یہ وضاحت سندھ اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر عبدالرزاق خان کی درخواست پر 1990 کی دہائی میں سامنے آئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت ایم کیو ایم نے کراچی آپریشن کے باعث اسمبلیوں سے استعفوں کا فیصلہ کیا تو عبدالرازق خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کر کے موقف اختیار کیا کہ ان پر پارٹی نے دباؤ ڈال کر استعفیٰ لیا ہے۔ 

عبدالرازق کی درخواست پر سپریم کورٹ نے استعفے کی منظوری کا وہ طریقہ کار طے کیا جو آج اسمبلی رولز کا حصہ ہے۔ سپیکر کو پابند کیا گیا کہ وہ مذکورہ رکن کو بلا کر تصدیق کریں گے کہ استعفیٰ خود دیا گیا ہے یا کسی دباؤ کے نتیجے میں۔ 

پارلیمانی امور کے ماہر ظفراللہ خان نے انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ رولز کے مطابق استعفے کی تصدیق کے لیے رکن کا ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ضروری ہے۔

’ممکن ہے کہ کئی ارکان تصدیق کے لیے آئیں اور کچھ نہ آئیں لیکن تصدیق ضروری ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ماضی میں 1990 کی دہائی میں جب کراچی آپریشن شروع ہوا تو متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے اراکین نے اپنی نشستوں سے استعفے دے دیے تھے اور وہ اراکین گرفتار بھی ہو چکے تھے۔

اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب نے استعفوں کی تصدیق پر زور دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ’اراکین کو استعفوں کی تصدیق کے لیے میرے سامنے پیش کیا جائے۔ اگر اراکین پیش نہیں ہوتے تو میں میں استعفے کیسے منظور کروں؟‘

ظفراللہ خان نے کہا کہ قاسم سوری کے استعفے منظور کرنے کا موقف درست نہیں اور کہا کہ ’قاسم سوری نے استعفے کس طرح منظور کرلیے انہوں نے استعفوں کی تصدیق کی تھی؟‘

ظفراللہ خان کے مطابق: ’2014 میں جب استعفے دیے گئے تھے تب پی ٹی آئی کے تمام اراکین گروپ کی صورت میں استعفوں کی تصدیق کے لیے آنا چاہتے تھے جو مناسب نہیں تھا کیوں کہ استعفے انفرادی معاملہ ہے۔ اس بار سپیکر نے تمام اراکین کے لیے وقت مقرر کرکے انہیں انفرادی طور پر بلایا ہے۔‘

سیاسی بیان بازی 

دوسری جانب عمران خان کی جانب سے دوبارہ اسلام آباد آنے کی چھ دن کی مدت گزر جانے کے بعد اب سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت اور پی ٹی آئی کی جانب سے بیانات میں بھی تیزی آگئی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ خان نے ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں انہوں نے پی ٹی آئی کو خبردار کیا ہے کہ وہ لانگ مارچ کے اعلان کا نہ سوچے۔ انہوں نے ایک بات واضح کی کہ اگر پی ٹی آئی اس بار لانگ مارچ کرتی ہے تو وہ دیکھتے ہیں کہ اس بار وہ رکاوٹیں کیسے عبور کرتے ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ کے اس ٹویٹ کے ردعمل میں پی ٹی آئی کے رہنما شہباز گل نے بھی ایک ٹویٹ کیا ہے۔ 

 

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست