چین کا رویہ مزید ’جارحانہ' ہو رہا ہے: امریکی وزیر دفاع

جمعے کو لائیڈ آسٹن اور چینی وزیر دفاع وی فینگ ہے کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں ممالک نے اس بات کا اعادہ ضرور کیا کہ وہ اپنے تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تاہم فریقین نے اختلافات کو حل کرنے میں کسی پیش رفت کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔

23  مئی 2022 کی اس تصویر میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن پینٹاگون میں ہونے والی ایک نیوز بریفنگ کے دوران (اے ایف پی)

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی تائیوان سمیت ایشیا میں ’جارحانہ‘ پالیسیوں کے باوجود امریکہ چین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور تنازعات کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات حالیہ مہینوں میں تناؤ کا شکار رہے ہیں اور دنیا کی ان دو بڑی معیشتوں کے درمیان تائیوان اور چین کے انسانی حقوق کے ریکارڈ سے لے کر بحیرہ جنوبی چین میں بیجنگ کی فوجی سرگرمیوں تک ہر معاملے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔

جمعے کو لائیڈ آسٹن اور چینی وزیر دفاع وی فینگ ہے کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں ممالک نے اس بات کا اعادہ ضرور کیا کہ وہ اپنے تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں تاہم دونوں ہی فریقین نے اختلافات کو حل کرنے میں کسی پیش رفت کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔

ہفتے کو سنگار پور میں ہونے والے شنگری لا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے لائیڈ آسٹن نے ایشیا کے سب سے بڑے سکیورٹی اجلاس کو بتایا کہ امریکہ تائیوان سمیت اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ خاص طور پر اہم ہے کیونکہ چین نے اپنے علاقائی دعوؤں کے لیے زیادہ ’جبر اور جارحانہ‘ انداز اپنا رکھا ہے۔

چین خود مختار خطے تائیوان پر ملک کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور بیجنگ نے اس عزم کا اظہار کر چکا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اسے طاقت سے حاصل کر لے گا۔

امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ دوسرے ممالک کے ساتھ چینی طیاروں اور بحری جہازوں کے درمیان غیر محفوظ اور غیر پیشہ ورانہ مقابلے بازی میں ’خطرناک‘ حد تک اضافہ ہوا ہے۔

ایک چینی لڑاکا طیارے نے مئی میں جنوبی بحیرہ چین کے علاقے میں آسٹریلیا کے فوجی نگرانی کے طیارے کا راستہ روک لیا تھا جب کہ کینیڈا کی فوج نے چینی جنگی طیاروں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے شمالی کوریا پر پابندیوں کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنے والے اس کے پیٹرولنگ طیاروں کو بھی ’ہراساں‘ کیا تھا۔

اسی طرح تائیوان کئی سالوں سے اپنے فضائی دفاعی زون میں بار بار چینی فضائیہ کے مشنز کی شکایت کر رہا ہے۔

 آسٹن نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

ادھر تائیوان کی وزارت خارجہ نے امریکہ کی حمایت پر شکریہ ادا کیا اور چین کے ان کے ملک پر ’خودمختاری‘ کے ’مضحکہ خیز‘ دعووں کی مذمت کی۔

تائی پے میں وزارت خارجہ کی ترجمان جوآن اوو نے کہا: ’تائیوان کبھی بھی چینی حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں رہا ہے اور تائیوان کے لوگ چینی حکومت کی طرف سے طاقت کے استعمال کی دھمکیوں کے سامنے نہیں جھکیں گے۔‘

لائیڈ آسٹن نے کہا کہ تائیوان کے بارے میں امریکہ کی پالیسی سٹیٹس کو میں کسی بھی یک طرفہ تبدیلی کے خلاف ہے۔

ان کے بقول: ’ہماری پالیسی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے چین اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم اس تناؤ کو ذمہ داری سے سنبھالنے، تنازعات کو روکنے اور امن اور خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی صدر جو بائیڈن نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ اگر چین تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ عسکری طور اس کا جواب دے گا حالانکہ ان کی انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ اس معاملے پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

واشنگٹن کی ایک طویل پالیسی ہے کہ وہ تائیوان کا فوجی طور پر دفاع کرے گا۔

چینی وزیر دفاع کے ساتھ آسٹن کی ملاقات زیادہ تر تائیوان کے معاملے پر مرکوز تھی۔

آسٹن نے کہا کہ آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام کو برقرار رکھنا صرف امریکی مفاد نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی تشویش کا معاملہ ہے۔

’کوئی ایشیائی نیٹو نہیں‘

اپنی تقریر میں آسٹن نے کہا کہ امریکہ ایشیا میں اپنی موجودگی برقرار رکھے گا لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ واشنگٹن تنازعات کو روکنے کی ضرورت کو سمجھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم تصادم یا جنگ کے خواہاں نہیں ہیں۔ اور ہم ایک نئی سرد جنگ، ایک ایشیائی نیٹو، یا دشمن بلاکس میں تقسیم ہونے والا خطہ نہیں چاہتے۔‘

آسٹن نے یوکرین پر روس کے حملے کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ظالم ان قوانین کو روند دیتے ہیں جو ہم سب کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یہ افراتفری اور غیر مستحکم دنیا کا ممکنہ پیش نظارہ ہے جس میں ہم میں سے کوئی نہیں رہنا چاہے گا۔‘

یوکرین کے صدر وولادی میر زیلنسکی نے بھی بعد میں ایک ورچوئل سیشن میں شنگری لا ڈائیلاگ سے خطاب کیا۔

چین نے روس کے حملے کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی اسے حملہ قرار دیا ہے بلکہ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل پر زور دیا ہے۔

بیجنگ اور ماسکو حالیہ برسوں میں قریب تر ہوتے گئے اور فروری میں دونوں فریقوں نے ایک وسیع سٹریٹجک شراکت داری پر دستخط کیے جس کا مقصد امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا