’کسی ریاستی ادارے کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے‘

تحقیقاتی اداروں میں حکومتی مداخلت سے متعلق کیس کی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایگزیکٹو کو اپنے اختیارات آئین و قانون کی روشنی میں استعمال کرنا ہوں گے۔

اسلام آباد میں چھ اپریل 2022 کو سپریم کورٹ کا ایک منظر (اے ایف پی)

تحقیقاتی اداروں میں حکومتی مداخلت سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل افراد کو بیرون ملک سفر کے لیے وزارت داخلہ سے اجازت لینے کا حکم دے دیا ہے۔

اسلام آباد میں منگل کو عدالت کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹو کو اپنے اختیارات آئین و قانون کی روشنی میں استعمال کرنا ہوں گے، اور کسی بھی تحقیقاتی ادارے، ایجنسی اور ریاستی ادارے کو اس کی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید کہا کہ ہم صرف قانون کی حاکمیت چاہتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ یہ سوال اہم ہے کہ مقتدر لوگوں نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے فائدہ اٹھایا اور جن لوگوں کے مقدمات زیر التوا ہیں ان کے لیے مروجہ طریقہ کار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ موجودہ حالات منفرد نوعیت کے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت پارلیمنٹ سے باہر جاچکی ہے اور ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، جس کے آغاز میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اٹارنی جنرل آفس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا اجلاس ہوا، جبکہ ای سی ایل رولز سے متعلق کابینہ کمیٹی کا اجلاس گذشتہ روز ہوا، جس میں سپریم کورٹ کے تمام سوالات اور آبزرویشنز کو سامنے رکھا گیا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں اٹارنی جنرل کو پیش ہونے کا کہا ہے۔

ایف آئی اے اور دیگر کیسز میں نامزد افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے جانے سے متعلق عدالتی اعتراض پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل آفس نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے متعلق ایس او پیز بنا کر تمام اداروں کو بھجوا دی ہیں۔ ای سی ایل سے نکالے گئے تمام ناموں کا الگ الگ کر کے دوبارہ سے جائزہ لیا جائے گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جو ترمیم ہوچکی ہے یا جو نام ای سی ایل سے نکل گئے ان کا کیا ہو گا؟ تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نیب اور ایف آئی اے سے مشاورت کے بعد رولز بنائے جائیں گے۔

چیف جسٹس نے اعتراض اٹھایا کہ جو لوگ خود بینیفشریز ہیں وہ رولز میں ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے یقین دہانی کروائی کہ بیرون ملک جانے سے پہلے متعلقہ شخص وزارت داخلہ سے اجازت لے گا اور جب تک حکومت قانون سازی نہیں کر لیتی یہ عبوری طریقہ کار رائج رہے گا۔

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ای سی ایل کے حوالے سے کوئی قانونی وجہ ہے تو بیان کریں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی وہی سوال دہرایا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ ایسی کیا جلدی تھی کہ دو دن میں ای سی ایل سے نام نکالنے کی منظوری دی گئی؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ان سوالات پر عدالت کو بتایا کہ کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل پر تھے۔ ماضی میں بھی اسی انداز میں ای سی ایل سے نام نکالے جاتے رہے ہیں۔

اس حکومتی دلیل پر جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ کیا حکومت کا یہ جواب ہے کہ ماضی میں ہوتا رہا تو اب بھی ہوگا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ بااختیار افراد نے ترمیم کرکے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قانونی عمل پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے، اگر کسی کو لگتا ہے کہ کیس میں جان نہیں تو متعلقہ عدالت سے رجوع کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا لگا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے خود پیش ہوکر ضمانت کرائی۔ ہم ضمانت کے حکم نامے کا بھی جائزہ لیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کابینہ ارکان نے تو بظاہر ای سی ایل کو ختم ہی کر دیا۔ اس پر حکومتی وکیل نے بتایا کہ ای سی ایل میں شامل کسی وزیر نے ترمیم کی منظوری نہیں دی۔

جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی بات ریکارڈ کے مطابق ہے؟ سعد رفیق کی منظوری ریکارڈ کا حصہ ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سعد رفیق نے کابینہ کمیٹی میں نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔ ترمیم کا براہ راست سعد رفیق کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سرکولیشن سمری میں رائے نہ بھی آئے تو اسے منظوری سمجھا جاتا ہے۔ سعد رفیق کے نام کے آگے یس اسی وجہ سے لکھا گیا ہے۔ جبکہ مفتاح اسماعیل ای سی ایل ترمیم کے وقت بیرون ملک تھے۔ مفتاح اسماعیل نے ترمیم پر کوئی رائے نہیں دی تھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے شعر کا مصرع پڑھتے ہوئے کہا کہ کابینہ کمیٹی کیسے نظرثانی کر سکتی ہے؟ ’بنے ہیں آپ ہی مدعی بھی منصب بھی، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ کابینہ کمیٹی خود قانون بناتی ہے خود ہی تشریح بھی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عبوری انتظام میں بھی کرپشن ملزمان نیب کی اجازت سے ہی بیرون ملک جائیں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو حکومت کی جانب سے یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ چند دن میں رولز کے حوالے سے باضابطہ طریقہ کار واضع ہوجائے گا۔ ترمیم تک کوئی ملزم بغیر اجازت بیرون ملک نہیں جا سکے گا۔ نئے رولز میں متعلقہ اداروں کی مرضی سے ہی ای سی ایل میں شامل ملزم بیرون ملک جا سکے گا۔

ایف آئی اے نے 42 ہائی پروفائل کیسز کا ڈیجیٹل ریکارڈ عدالت مں جمع کرا دیا۔ ڈی جی ایف آئی اے نے سیل لفافے میں ریکارڈ جمع کرایا جبکہ نیب نے ہائی پروفائل کیسز کا ڈیجیٹل ریکارڈ جمع کرانے کے لیے دو ہفتوں کا وقت مانگ لیا۔ عدالت نے نیب کو مہلت دیتے ہوئے سماعت 27 جون تک ملتوی کر دی۔

کیس کا سیاق و سباق

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے یہ الزامات سامنے آئے کہ مخلوط حکومت نے مبینہ طور پر مختلف کیسز پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا ہے اور اُن تفتیشی افسران کے تبادلے کرنا شروع کر دیے ہیں جو کہ کرپشن کے الزامات سے متعلق ہیں۔

اس کے بعد 18 مئی کو سپریم کورٹ نے معاملے پر ازخود نوٹس لے کر سیکرٹری داخلہ سے مبینہ مداخلت کی رپورٹ و تفصیلات طلب کر لیں تھیں۔ اس کے علاوہ عدالت نے احتساب عدالت، نیب  اور ایف آئی اے میں ہائی پروفائل مقدمات کے افسران کے تبادلوں پر پابندی لگا دی تھی۔ عدالت نے 22 اپریل کو ای سی ایل قوانین میں تبدیلی اور اراکین کے نام نکالے جانے پر بھی اعتراض کیا تھا۔

سپریم کورٹ اعلامیے کے مطابق: ’موجودہ حکومت میں موجود افراد سے متعلق زیر التوا کرمنل معاملات کی پراسیکیوشن اور تفتیش کے لیے پراسیکیوشن برانچ کے اختیارات اور فرائض کی ادائیگی میں مداخلت کا خدشہ ہے۔‘

نیب کے مطابق ای سی ایل ترمیم کے بعد 174 بااثر افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ جمع کرائیں، فی الحال حکومت کے ای سی ایل رولز سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے رہے، قانون پر عمل کے کچھ ضوابط ضروری ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان