امریکی پارلیمان پر حملے میں ٹرمپ شریک ہونا چاہتے تھے: سابق معاون

امریکہ میں چھ جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر حملے کی تحقیق کرنے والی کمیٹی کو بیان دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کے چیف آف سٹاف مارک میڈوز کی معاون کیسیڈی ہچنسن نے کہا کہ ’صدر ٹرمپ اس وقت غصے میں آگئے جب انہیں بتایا گیا کہ یہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ناممکن ہے۔‘

کیسڈی ہچنسن 28 جون 2022 کو ہاؤس سلیکٹ کمیٹی کی چھٹی سماعت کے دوران  (تصویر: اے ایف پی)

امریکہ میں صدارتی انتخابات کے بعد چھ جنوری 2021 کو پارلیمان پر حملے کی تحقیق کرنے والی کمیٹی کو بیان دیتے ہوئے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چیف آف سٹاف مارک میڈوز کی معاون کیسیڈی ہچنسن نے کہا ہے کہ سابق صدر بھی ہجوم میں شامل ہونے کے لیے کیپیٹل ہل جانا چاہتے تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کیپیٹل ہل پر حملے کی تحقیقات کرنے والی ہاؤس کمیٹی کے سامنے اب تک کی سب سے زیادہ دھماکہ خیز گواہی میں کیسیڈی ہچنسن نے کہا کہ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب اپنی تقریر کے بعد انہیں کیپیٹل ہل لے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔ وہ اپنے سیکرٹ سروس ڈرائیور پر پوری قوت سے چلائے اور ہجوم میں شامل ہونے کی کوشش میں اپنی لیموزین کا سٹیئرنگ وہیل پکڑ لیا۔

ہچنسن کے مطابق: ’سابق صدر ٹرمپ اس وقت غصے میں آگئے جب انہیں بتایا گیا کہ یہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ناممکن ہے، جس پر انہوں نے اپنی سرکاری گاڑی کے کنٹرول کے لیے سیکرٹ سروس اہلکار سے گتھم گتھا ہونے کی کوشش کی۔‘

گواہی دینے والی ہچنسن، جن کے مطابق انہیں یہ بات انتظامیہ کے ایک اور اہلکار نے سنائی تھی، نے کہا: ’ٹرمپ نے کہا کہ میں کامیاب صدر ہوں، مجھے ابھی کیپیٹل تک لے جائیں۔‘

اس سماعت کو ٹی وی پر دیکھنے والے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا نیٹ ورک پر ایک سے زیادہ پوسٹس میں ہچنسن کے بیان کردہ واقعے کو ’جعلی کہانی‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور سماعت کو ’کینگرو کورٹ‘ قرار دیا۔

رواں ماہ پہلی بار وائٹ ہاؤس کی اہلکار براہ راست گواہی کے لیے پیش ہوئیں، اس سے قبل یہ سلسلہ ویڈیو گواہی کی شکل میں جاری رہا تھا۔

کیسیڈی ہچنسن نے اپنے بیان میں کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی پروا نہیں کی کہ امریکی دارالحکومت پر حملے سے پہلے کی ریلی میں شامل افراد مسلح تھے اور ان کے پاس AR-15 طرز کی رائفلیں بھی تھیں۔

بیان کے مطابق صدر ٹرمپ نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’سیکرٹ سروس، جس پر صدر کی حفاظت کا الزام ہے، مسلح لوگوں کو باڑ والے علاقے سے دور رکھنے کے لیے میگنیٹومیٹر کا استعمال کر رہی تھی نیز انہوں نے ایک اشتعال انگیز تقریر کی جس میں انہوں نے اپنے جھوٹے دعووں کو دہرایا کہ ان کی شکست دھوکہ دہی کے نتیجے میں ہوئی۔‘

امریکی ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی ایک سال سے زیادہ عرصے سے امریکی تاریخ میں اقتدار کی پرامن منتقلی کو روکنے کی پہلی کوشش کی تحقیقات کر رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کمیٹی کے چیئرمین بینی تھامسن نے سماعت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ منگل کو نئے شواہد پیش کیے جا رہے ہیں کہ ’چھ جنوری اور اس سے پہلے کے دنوں میں وائٹ ہاؤس میں کیا ہو رہا تھا۔‘

بینی تھامسن نے کمیٹی کے سامنے گواہی دینے کے لیے کیسیڈی ہچنسن کی ’جرات‘ کی تعریف کی۔

گذشتہ ہفتے آخری سماعت کے دوران ویڈیو گواہی میں، ہچنسن نے کمیٹی کو بتایا کہ ٹرمپ کے رپبلکن اتحادیوں نے ان کی 2020 کی انتخابی شکست کو الٹانے کی کوششوں کی حمایت کرنے کے بعد وائٹ ہاؤس سے معافی مانگی تھی۔

کمیٹی کی پانچ پیشگی سماعتوں میں ہونے والی گواہی سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ’کس طرح سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہزاروں حامیوں کو جھوٹے دعوؤں سے مشتعل کیا اور بتایا کہ وہ 2020 کے انتخابات بڑے پیمانے پر ووٹروں کی دھوکہ دہی کی وجہ سے ہارے ہیں۔‘

اس ماہ کی سماعتوں میں ٹرمپ کی سب سے بڑی بیٹی ایوانکا ٹرمپ اور ان کے سابق اٹارنی جنرل بل بار سمیت اہم شخصیات کی ویڈیو ٹیپ شدہ گواہی شامل ہیں۔ انہوں نے اور دیگر گواہوں نے موقف اختیار کیا کہ وہ ’ٹرمپ کے وسیع پیمانے پر دھوکہ دہی کے جھوٹے دعووں پر یقین نہیں کرتے۔‘

دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ ان تمام حقائق سے انکار کرتے ہیں اور کمیٹی پر سیاسی جوڑ توڑ میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ انہوں نے خاص طور پر نمائندہ لز چینی پر سخت تنقید کی ہے، جو نو رکنی کمیٹی میں موجود صرف دو رپبلکنز میں سے ایک ہیں۔

رواں ماہ کے اوائل میں روئٹرز/ اِپسوس کے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ تقریباً دو تہائی امریکی ریپبلکن افراد ڈونلڈ ٹرمپ کے ’انتخابی فراڈ کے جھوٹے دعوؤں‘ پر یقین رکھتے ہیں۔

توقع ہے کہ یہ کمیٹی، اگلے ماہ دائیں بازو کے انتہا پسند گروپوں کے چھ جنوری کو حملے پر ایک یا دو سماعتیں کرے گی۔

کیپیٹل پر حملے کے دوران، ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے، پولیس کے ساتھ لڑائی کی، حملے کے دن چار افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ایک پولیس کی گولی سے ہلاک ہوا۔ 100 سے زیادہ پولیس اہلکار اس کارروائی میں زخمی ہوئے۔

قبل ازیں ان حملوں میں سات سو سے زیادہ افراد پر وفاقی جرائم کا الزام لگایا جا چکا ہے۔  سازشی نظریے کیو اینون کے نام نہاد شامن جیکب چانسلی، جنہوں نے سر پر سینگ سجائے اور سمور دار کھال پہنے ہجوم کی قیادت کی، کو41 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ جینا رائن نامی خاتون، جو کیپٹل ہل میں بلوائیوں کا حصہ بننے سے قبل نجی جہاز پر واشنگٹن ڈی سی پہنچی تھی اور بعد میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس لیے جیل نہیں جائیں گی کیونکہ ان کے ’بال سنہرے ہیں‘ اور ’رنگ سفید‘ ہے، ان کو 60 دن قید کی سزا دی گئی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے مسلح گروہ جیسے ’پراؤڈ بوائز‘ اور ’اوتھ کیپرز‘ کے اراکین کے خلاف مزید پیچیدہ مقدمات کی سماعت جاری ہے۔

چھ جنوری کو امریکی کیپیٹل پر حملے کی تحقیقات وفاقی سطح پر تاریخ کی سب سے بڑی تحقیقات تھیں جس دوران امریکہ بھر میں 50 سے زائد فیلڈ دفاتر کے ایف بی آئی ایجنٹ مجرموں کی شناخت اور گرفتاری کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعے ملنے والی تقریباً ڈھائی لاکھ اطلاعات، لاکھوں سوشل میڈیا پوسٹس، ویڈیوز اور تصاویر کھنگال رہے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ