سرگڑھی میں 125سال پہلے کیا ہوا تھا؟

برطانوی سکھ فوجیوں کے اورکزئی دورے کے بعد یہ سوال سامنے آیا ہے کہ دراصل آج سے کم و بیش 125 سال پہلے یہاں پر کیا ہوا تھا۔

برطانوی سکھ فوجیوں نے اورکزئی میں چھ ہزار میٹر بلند مقام پر سوا سو سال قبل جان دینے والے سکھ فوجیوں کی یاد گار تعمیر کی ہے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان فوج کی دعوت پر رواں ہفتے برطانوی فوج میں تعینات سکھ فوجیوں نے ضلع اورکزئی میں واقع سرگڑھی قلعے کا دورہ کیا اور 12 ستمبر 1897 کو یہاں ایک جھڑپ میں ہلاک ہونے والے 21 سکھ فوجیوں کی یاد میں تختیاں نصب کیں۔

برطانوی سکھ فوجیوں کے اس دورے کے بعد یہ سوال سامنے آیا ہے کہ دراصل آج سے کم و بیش 125 سال پہلے یہاں پر کیا ہوا تھا اور کیوں اچانک بھارتی حکومت بالعموم اور سکھ بالخصوص اس تاریخ کو اہمیت دے رہے ہیں۔

بھارت میں ہر سال 12 ستمبر کو سکھ ریجمنٹ کی بہادری کا دن منایا جاتا ہے۔ 2017 میں بھارتی پنجاب کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ سرگڑھی دن کو سرکاری طور پر منائے گی اور اس روز عام تعطیل ہو گی۔

شیرومانی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی نے ایک ہال کو بھی سرگڑھی کا نام دے دیا۔ 2019 میں بھارتی فلم انڈسٹری نے اس پر ایک فلم ’کیسری‘ کے نام سے بنائی۔

سرگڑھی کا قلعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بنایا گیا تھا۔ یہ دراصل ایک اطلاعاتی مرکز تھا جو فورٹ لاک ہرٹ اور فورٹ گلستان کے درمیان مواصلاتی رابطوں کے لیے تقریباً ان دونوں قلعوں کے درمیان بنایا گیا تھا۔ ان قلعوں کا مقصد مغربی سرحدوں کی حفاظت تھی۔

سرگڑھی کا معرکہ انگریز کمانڈنگ افسر کی زبانی

سرگڑھی میں تعینات 36 سکھ ریجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹینٹ کرنل جان ہاگٹن کی زندگی پر میجر اے سی ییٹ نے ’دا لائف آف لیفٹیننٹ کرنل جان ہاگٹن‘ نامی ایک کتاب لکھی جس میں وہ لکھتے ہیں کہ آفریدی قبائل نہ صرف اپنی بے مثال جرات کے حوالے سے جانے جاتے ہیں بلکہ وہ ہر وقت جدید اسلحے سے مسلح رہتے ہیں۔

جب تیراہ میں آفریدی، اورکزئی اور شینواری قبائل نے 1897 میں انگریز سرکار کے خلاف بغاوت کر دی تو اس وقت لیفٹینٹ کرنل ہاگٹن کو وہاں تعینات کیا گیا۔ ان کے ذمہ ہنگو سے مغرب کی جانب واقع سمانا کے پہاڑی سلسلے میں واقع قلعوں کی حفاظت تھی۔

سمانا کا قلعہ کوہاٹ سے 25 میل مغرب کی جانب  واقع تھا۔ سمانا کے شمال میں خانکی اور جنوب میں میران زئی کی وادیاں تھیں۔  بغاوت کی وجہ سے انگریز پشاور سے کرم کے درمیان اپنی فوجی پوسٹوں کے بارے میں خاصی تشویش میں مبتلا تھے۔ میجر جنرل یتمان بگز کو ہنگو میں کمانڈ کرنے کے لیے بھیجا گیا۔

سمانا کے علاقے میں دو اہم پوسٹیں تھیں جن میں سے ایک فورٹ لاک ہرٹ (مستان قلعہ) اور دوسری فورٹ کیوگناری ( قلعہ گلستان)  تھیں۔ پہلا قلعہ ہنگو سے نو اور دوسرا 12 میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہ دونوں قلعے سر ولیم لاک ہرٹ نے 1881 میں قبضے میں لیے تھے۔ ان قلعوں کی دیواریں 12 سے15 میٹر بلند تھیں۔ ایک قلعے میں 300 اور دوسرے میں 200 سپاہی موجود تھے۔ ان دونوں قلعوں کے درمیان ایک پوسٹ سرگڑھی کے قلعے میں قائم کی گئی تھی جہاں 21 فوجی تعینات تھے۔

25 اگست کو اطلاع ملی کہ ایک بڑا لشکر قریبی وادیوں میں اکھٹا ہو رہا ہے جس میں اورکزئی اور آفریدی سپاہیوں کی تعداد 25 ہزار کے لگ بھگ بیان کی گئی تھی۔ لشکریوں نے کچھ پوسٹوں پر حملہ کیا جسے پسپا کر دیا گیا۔

27 گست کو اورکزئی قبائل نے سمانا کی پہاڑیوں میں انگریز پوسٹوں پر حملہ کیا اور کچھ پولیس پوسٹوں پر قبضہ کر لیا۔ گلستان قلعے پر جب حملہ ہوا تو لیفٹینٹ کرنل ہاگٹن وہاں کمک لے کر پہنچے لیکن انہیں جلد احساس ہوا کہ حملہ آور اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ فوج ان کے پاس نہیں۔ اس لیے انہوں نے گلستان قلعہ چھوڑ کر پسپائی اختیار کر لی۔ اس دوران کچھ انگریز افسران بری طرح زخمی بھی ہوئے۔

28 اگست تک اورکزئی لشکر کئی اہم پوسٹوں پر قبضہ کر چکا تھا اور انگریزوں کی تشویش مسلسل بڑھ رہی تھی۔ بارڈر پولیس اور لیویز نے کہیں بھی مزاحمت نہیں دکھائی بلکہ اپنی جانیں بچانے میں ہی عافیت سمجھی۔ اورکزئی قبائل نے اپنی پیش قدمی  تین ستمبر تک جاری رکھی۔

کرنل ہاگٹن لاک ہرٹ قلعے میں اپنی طاقت اکھٹی کر کے مقابلے کی  تیاریوں میں تھے۔ اس دوران انہیں ایک اور بری خبر ملی کہ  اورکزئی قبائل کی مدد کو آفریدی قبائل بھی آگئے ہیں اور دونوں نے مل کر مشترکہ حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ اس دوران جنرل یتمان بگز نے ہنگو سے اڑھائی ہزار فوجیوں کی طاقت کے ساتھ لاک ہرٹ قلعے کو مدد فراہم کی۔ وہ خود بھی آٹھ ستمبر کو یہاں پہنچ گئے۔

قلعے کے دو اطراف 25 ہزار کا لشکر گھیرا ڈالے ہوئے تھا۔ دونوں طرف سے لڑائی چھڑ گئی مگر دو روز بعد اورکزئی اور آفریدی قبائل کے جنگجوؤں نے ایک اور حکمت عملی اپنائی اور لاک ہرٹ قلعے کو چھوڑ کر سرگڑھی کی جانب کوچ کیا۔ اس بار لاک ہرٹ قلعے سے سرگڑھی قلعے کو کمک پہنچانا ممکن نہیں تھا۔

12 سے 20 ہزار لشکریوں نے 12 ستمبر کو سرگڑھی پوسٹ کا گھیراؤ کر لیا۔ وہ جب بھی قلعے پر حملہ کرتے آگے سے گولیوں کی بوچھاڑ آتی۔ قبائلی مرتے رہے مگر انہوں نے یلغار میں کمی نہ آنے دی۔ اسی دوران کچھ  قبائلی فائرنگ کی آڑ لیتے ہوئے قلعے کی دیوار کے قریب پہنچ گئے اور انہوں نے  دیوار کھودنا شروع کر دی۔

میجر واکس جو گلستان قلعے سے یہ منظر دیکھ رہے تھے انہوں نے سرگڑھی میں سگنل کے ذریعے پیغام بھیجا کہ لشکری دیوار میں سوراخ  کر رہے ہیں۔ مگر پیغام پہنچ نہیں سکا۔ کرنل ہاگٹن نے لاک ہرٹ قلعے سے لانگ رینج  بندوقوں کے ذریعے فائرنگ کروائی تاکہ قبائلیوں کی توجہ سرگڑھی سے موڑی جا سکے جہاں لڑنے کو صرف 21 سکھ فوجی موجود تھے اور جن کے پاس فی کس صرف چار سو راؤنڈ موجود تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دن کے تین بجے سرگڑھی سے  سگنل موصول ہوا کہ اسلحہ ختم ہو رہا ہے تب کرنل ہاگٹن نے اپنی پوری فورس کے ساتھ سرگڑھی پوسٹ کی مدد کا فیصلہ کیا لیکن وہ چند قدم ہی نکلے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ کھیل ختم ہو چکا ہے اور قبائلی قلعے کی دیواروں پر گشت کر رہے ہیں۔ صرف 21 سکھ فوجیوں نے مرتے دم تک 12 سے 20 ہزار کے لشکر کو صبح  نو سے دن تین بجے تک روکے رکھا اور مرتے دم تک مقابلہ کیا۔ دوسری جانب لشکریوں کے دو سو سے زائد سپاہی اس معرکے کی نذر ہو گئے۔

پشتونوں اور سکھوں کی ازلی دشمنی

سرگڑھی کی جنگ برصغیر کی دو قوموں کے درمیان تھی، سکھ جو برطانوی راج کی جانب سے لڑ رہے تھے اور پٹھان جو اپنی آزادی کی خاطر لڑ رہے تھے۔

سکھوں اور پٹھانوں کا جھگڑا اس وقت سے چلا آ رہا ہے جب احمد شاہ ابدالی نے 1748 میں پنجاب پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پہلا حملہ کیا تھا ۔ 1800 میں سکھوں کو پنجاب پر قبضہ اور افغانوں کو ڈیورنڈ لائن کے اس پار رکھنے کا موقع میسر آ گیا مگر اس کے باوجود سکھوں اور پٹھانوں کی جھڑپیں جاری رہتی تھیں۔

1849 میں انگریزوں نے خالصہ فوج کو شکست دے کر سکھ راج کا خاتمہ کر دیا۔ انگریزوں کو 1897 میں پٹھان قبائل کی جانب سے بغاوت کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے سکھوں اور پٹھانوں کی ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی کو مدنظر رکھتے ہوئے سکھ ریجمنٹ کو قبائلی علاقوں میں تعینات کرنے کا فیصلہ کیا۔

12 ستمبر 1897 کو دراصل ہوا کیا تھا؟

سرگڑھی کے معرکے کے بارے میں تاریخ میں متضاد آرا پائی جاتی ہیں۔ صبح نو بجے پٹھان  لشکر نے سرگڑھی پوسٹ پر حملہ کیا اور یہ جنگ سہ پہر ساڑے تین بجے تک اس وقت تک جاری رہی جب تمام سکھ فوجی مارے نہیں گئے۔ اس جنگ میں کوئی زندہ نہیں بچا اس لیے جو بھی معلومات پہنچیں وہ گلستان اور لاک ہرٹ قلعوں میں متعین ان فوجیوں  نے دیں جو دوربینوں کے ذریعے لڑائی کو دیکھ رہے تھے۔

یہ قلعے سرگڑھی سے اڑھائی میل کے فاصلے پر واقع تھے۔ سرگڑھی سے سگنل بھیجنے والے سپاہی گورمکھ سنگھ  کے سگنل لاک ہرٹ قلعے میں موصول ہوئے۔ ایک سگنل دن بارہ بجے آیا جس میں جنگ کی صورت حال بتائی گئی اور کہا گیا کہ ایک سپاہی مارا گیا ہے اور ایک نان کمیشنڈ افسر زخمی ہوا ہے، تین بندوقیں ناکارہ ہو چکی ہیں، جس پر لیفٹیننٹ کرنل ہاگٹن نے لیفٹیننٹ جارج من کو 12 فوجیوں کے ساتھ بھیجا کہ وہ فاصلے پر جا کر فائرنگ کریں تاکہ حملہ آوروں کی توجہ ہٹائی جا سکے لیکن یہ حربہ ناکام رہا۔

دوسرا سگنل سہ پہر تین بجے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ اب صرف وہی بچے ہیں اس لیے وہ سگنل کا کام چھوڑ کر لڑنے کے لیے جا رہے ہیں۔ یہ جنگ ’آخری آدمی اور آخری گولی‘ تک لڑی گئی اور ساڑھے چھ گھنٹے جاری رہی جس میں صرف 21 سکھ فوجیوں نے ہزاروں کے لشکر کا ساڑھے چھ گھنٹے تک مقابلہ کیا، جس کی وجہ سے اسے جنگی تاریخ میں اہم معرکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ حوالدار اشر سنگھ  اس معرکے کو کمانڈ کر رہے تھے۔

تاہم کیا حملہ آور لشکر 12 سے 20 ہزار افراد پر مشتمل تھا، اس حوالے سے تاریخ میں تضادات موجود ہیں۔ ایک تو یہ کہ قلعہ سرگڑھی جس اونچائی پر واقع تھا وہاں ایک تنگ سا راستہ ہی جاتا تھا جہاں سے بیک وقت سو ڈیڑھ سو افراد ہی حملہ کرنے کے لیے گزر سکتے تھے اس لیے یہ کہنا کہ 12 سے 15 ہزار حملہ آور تھے قرین قیاس نہیں لگتا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ باقی کا لشکر لاک ہرٹ اور گلستان قلعے کی جانب سے کمک روکنے کے لیے کسی اور جگہ پوزیشن لے کر بیٹھا ہو۔

یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ21 سکھ فوجیوں نے 600 سے1000 پٹھانوں کو قتل کیا۔ لیکن سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ اس میں 400 پٹھان مارے گئے اور 600 زخمی ہوئے۔

اس جنگ میں مرنے والے تمام سکھ فوجیوں کو ملکہ وکٹوریا کی جانب سے اس وقت کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ’آرڈر آف میرٹ‘ دیا گیا۔

جب انگریزوں نے اس قلعے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا تو انہوں نے یہاں پر سکھ فوجیوں کے اعزاز میں مخروطی شکل کا ایک مینار بھی بنایا۔ امرتسر اور فیروز پور میں ان کی یاد میں گوردوارے بنائے گئے۔

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ