جنگ زدہ یوکرین میں ’چابیوں کے محافظ‘ سے ملیے

یووگین یلپیٹی فوروف کے پاس روسی حملے کی وجہ سے انخلا پر مجبور ہونے والے اپنے دوست احباب کے گھروں کی کُل 19 چابیاں ہیں اور وہ ان کی غیر موجوگی میں ان کے گھروں کا خیال رکھ رہے ہیں۔

یووگین یلپیٹی فوروف نے ان گھروں کی چابیاں اپنے پاس محفوظ کر رکھی ہیں، جو ان کے دوست احباب روسی حملے کے بعد یوکرین سے فرار ہوتے ہوئے انہیں تھما گئے تھے تاکہ وہ ان کی دیکھ بھال کرسکیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں 37 سالہ یووگین نے چابیوں کا گچھا دکھاتے ہوئے کہا: ’یہ کُل 19 چابیاں ہیں۔‘

یووگین ماہر حیاتیات ہیں اور گزر بسر کے لیے بطور باغبان کام کرتے ہیں لیکن اب ان کے پاس ایک اور ’عہدہ‘ بھی ہے اور وہ ہے ’چابیوں کا محافظ۔‘

پچھلے کچھ مہینوں سے وہ یوکرین کے دارالحکومت کیئف کے تباہ شدہ مضافاتی علاقوں بوچا اور ارپن میں ان گھروں اور گھروں کے اندر موجود پودوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، جنہیں ان کے مالکان اس وقت چھوڑ گئے تھے، جب انہیں روسی حملے کے دوران اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔

یووگین نے اے ایف پی کو بتایا: ’آزادی کے بعد، میرے بہت سے جاننے والوں نے مجھے کہا کہ میں جاکر دیکھوں کہ آیا ان کے گھر ابھی تک سلامت ہیں اور کیا ان میں کھڑکیاں اور دروازے موجود ہیں۔‘

روسی افواج نے رواں برس مارچ میں ارپن پر قبضے کا دعویٰ کیا تھا، جسے بعدازاں یوکرینی فورسز نے آزاد کروا لیا تھا۔

ارپن واپسی کے بعد یووگین اپنے دوست احباب کے گھروں کا رخ کرتے، وہاں کی بتیاں روشن کرتے تاکہ وہ لٹیروں سے بچے رہیں، ٹوٹے ہوئے شیشے صاف کرتے، سامان ان کے مالکان کو بھیجتے یا تھوڑی بہت باغبانی کر لیتے۔

جلد ہی یہ بات پھیل گئی اور ان کے پاس گھروں کی چابیاں جمع ہونے لگیں۔ یووگین نے بتایا: ’یہ چابیاں یا تو ڈاک کے ذریعے بھیجی گئیں یا میں انہیں کسی پڑوسی سے لے لیتا یا پھر دروازے کے باہر پائیدان کے نیچے سے۔‘

کچھ چابیاں اظہار تشکر کے طور پر کافی یا چاکلیٹ کے ساتھ آئیں، کیونکہ یووگین یہ سب کچھ اپنے دل سے نیکی کے جذبے کے تحت کر رہے تھے۔

واپس آنے والے دوستوں کو اکثر یووگین کی طرف سے چھوٹا سا تحفہ، گلدستہ یا پھل ملتے تاکہ انہیں ’خوشی‘ کا احساس دلایا جا سکے۔

انہوں نے کہا: ’اگر میں ان کی جگہ ہوتا تو وہ بھی میری مدد کرتے۔ وہ میرے دوست ہیں۔ میرے پاس موجود تمام چابیاں ان لوگوں کے گھروں کی ہیں، جنہیں میں جانتا ہوں۔‘

’فریج کے لیے گیس ماسک‘

لیکن کبھی کبھی یہ سب کچھ ناخوشگوار بھی ہوتا ہے۔ بقول یووگین ’سب سے مشکل کام‘ فریجوں اور فریزروں سے سڑے ہوئے کھانے کو صاف کرنا تھا، جو کئی ہفتوں تک بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گل سڑ گیا تھا۔

انہوں نے بتایا: ’بدبو اتنی زیادہ تھی کہ انسان بے ہوش ہو جائے۔‘

یہی وجہ ہے کہ وہ بہت شکر گزار تھے کہ انہیں کسی نے سوویت دور کا گیس ماسک فراہم کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول یووگین: ’مکمل صفائی کے بعد بھی اپارٹمنٹس کو مزید کچھ بار تازہ ہوا کے لیے کھولنے کی ضرورت ہے کیونکہ بو ایک یا دو ہفتے تک رہتی ہے۔‘

بوچا میں، جو روسی فوجیوں کے جرائم کی علامت بن چکا ہے، یووگین نے اپنی کار ایک بالکل نئی رہائشی عمارت کے سامنے کھڑی کی، جہاں اکثر اپارٹمنٹس کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں۔

باہر کھڑی ایک کار میں ڈھانچے کے علاوہ اور کچھ نہیں بچا تھا جبکہ دوسری گاڑی میں بھی کئی چھید تھے۔

یووگین ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں کچھ پودوں کو پانی دینے کے لیے کافی دیر ٹھہرے۔

جنگ کی واحد نشانی دیوار پر روسی سپاہیوں کی طرف سے چھوڑا ہوا ایک نوٹ تھا، جس پر درج تھا: ’بلااجازت داخل ہونے پر معاف کیجیے گا۔‘

گھر کا مرکزی دروازہ، اس منزل پر موجود دیگر لوگوں کی طرح، انہیں تبدیل کرنا پڑا۔

ارپن میں یووگین نے اپنے سمارٹ فون سے کچھ پودوں کی ویڈیو بنائی، جنہیں وہ ان کے مالکان کو بھیجیں گے جو بیرون ملک ہیں۔

ان کی واپسی کے راستے میں کچھ لوگ جلی ہوئی دیواروں والے مکان پر نئی چھت ڈال رہے تھے۔ یووگین ایک جھاڑی کے پاس رکے، جو آگ سے بری طرح جھلس گئی تھی۔

انہوں نے کہا: ’یہ مجھے یوکرین کے لوگوں کی یاد دلاتی ہے۔ ایک طرف یہ جل رہی ہے، دوسری طرف اس میں بڑھتے رہنے کی طاقت ہے۔‘

جنگ سے پہلے ٹیلی ویژن پر وائس اوور کرنے والے اداکار اولیکسینڈر فرمن نے بھی رواں برس اپریل کا مہینہ چابیوں کے محافظ کے طور پر گزارا، جو دارالحکومت کیئف میں اپنے دوستوں کے چھوڑے گئے چھ اپارٹمنٹس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔

اولیکسینڈر نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں خوش قسمت تھا۔ مجھ پر گولی نہیں چلائی گئی، میزائل میرے قریب نہیں گرے۔‘

لوگوں کی مدد کر کے انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ’مصیبت کا شکار ہونے والوں کی مدد کرکے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا