ایران: ’جاسوسی‘ کے الزام میں غیر ملکی سفارت کاروں کی گرفتاری

ایران کے سرکاری ٹی وی پر چلنے والی خبروں کے مطابق’جاسوسی‘ کے الزام میں کئی غیر ملکی سفارت کاروں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں ایک برطانوی سفارت کار بھی شامل ہیں، تاہم برطانوی حکومت نے اس کی تردید کی ہے۔

تہران میں 17 جولائی 2021 کو ایک شہری ایرانی پرچم کی تصویر کے پاس سے گزر رہی ہیں (اے ایف پی)

ایران کے ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب نے ’جاسوسی‘ کرنے کے الزام میں ایک برطانوی سفارت کار سمیت کئی سفارت کاروں کو گرفتار کر لیا ہے۔

ایرانی خبر رساں ادارے فارس نیوز اور سرکاری ٹی وی پر بدھ کو چلنے والی خبروں کے مطابق ان افراد کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے تاہم برطانوی حکومت نے اس بات کی فوری طور پر تردید کی ہے کہ اس کے کسی اہلکار کو گرفتار کیا گیا ہے۔ برطانوی حکومت نے ان اطلاعات کو بھی ’مکمل طور پر غلط‘ قرار دیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ گرفتاریاں ایک ایسے وقت میں کی گئیں ہیں جب ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ہونے والے مذاکرات سخت تناؤ کا شکار ہیں جبکہ ایران میں غیر ملکیوں کی گرفتاریوں کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں۔

اے ایف پی نے رپورٹ کیا کہ فارس نیوز کے مطابق ’پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس سروس نے غیر ملکی سفارت خانوں کے ایسے سفارت کاروں کی شناخت اور گرفتاریاں کی ہیں جو ایران میں جاسوسی کر رہے تھے۔‘

ادارے کے مطابق ایک برطانوی سفارت کار کو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔

سرکاری ٹیلی ویژن کے مطابق برطانوی شہری جن کی شناخت جائلز ویٹیکر کے نام سے کی گئی ہے ایران میں برطانوی حکومت کے مشن کے نائب سربراہ ہیں اور انہیں وسطی ایران کے اس علاقے سے نکال دیا گیا جہاں سفارت کاروں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

سرکاری ٹی وی نے ان پر ’انٹیلی جنس آپریشنز‘ سرانجام دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

ٹی وی پر دکھائی جانے والی ایک ویڈیو میں ایک شخص، جنہیں ویٹیکر کے طور پر پیش کیا گیا، کو ایک کمرے میں بات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایرانی ٹی وی کا کہنا تھا کہ ’ویٹیکر نے حکام سے معافی مانگ لی تھی جس کے بعد انہیں ملک بدر کر دیا گیا تھا۔‘

سرکاری ٹی وی سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ’یہ سفارت کار ان افراد میں شامل تھے جو صحرائے شاہ داد میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ بطور سیاح گئے تھے۔‘

ان کے مطابق: ’تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس شخص نے ایک ایسے علاقے میں جہاں اسی وقت فوجی مشقیں کی جا رہی تھیں، تصاویر بنائی ہیں۔‘

دوسری جانب برطانوی حکومت نے ان اطلاعات کو مسترد کر دیا ہے۔

برطانوی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق ’ایران میں ایک برطانوی سفارت کار کی گرفتاری کی خبریں مکمل طور پر غلط ہیں۔‘

ایران میں گرفتار کیے جانے والے دیگر افراد کی تعداد، قومیت اور گرفتاری کی تاریخ کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آسکیں لیکن سرکاری ٹی وی کے مطابق ’اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ممکنہ عسکری پہلو پر کام کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ دوسرے ممالک کے سفارت خانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو استعمال کر رہا ہے۔‘

اسرائیل ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کا بڑا مخالف ہے اور اسے اپنی سکیورٹی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتا ہے۔

ایران کے سرکاری ٹی وی پر ایک اور شخص، جن کی شناخت ’ماکیج والزاک‘ کے نام سے کی گئی، کی تصاویر بھی دکھائی گئیں جو ’یونیورسٹی آف پولینڈ کے مائیکروبائیولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیں۔‘

سرکاری ٹی وی کا کہنا تھا کہ ’یہ یونیورسٹی صیہونی حکومت سے تعلق رکھتی ہے۔‘

ماکیج والزاک کی قومیت نہیں بتائی گئی لیکن سرکاری ٹی وی کے مطابق ’وہ سائنسی تبادلے کے بہانے دیگر افراد کے ساتھ ایران میں داخل ہوئے تھے لیکن وہ بطور سیاح صحرائے شاہ داد جا پہنچے جہاں میزائل تجربات کیے جا رہے تھے۔‘

رپورٹ کے مطابق انہوں نے اس علاقے سے مٹی اور پتھروں کے نمونے بھی اکٹھے کیے۔

فارس نیوز کے مطابق گرفتار کیے جانے والے افراد نے جاسوسی کے مقاصد کے لیے صحرا سے پتھروں کے نمونے جمع کیے تھے۔

اسی طرح سرکاری ٹی وی پر ایک اور شخص کی شناخت ’رونلڈ‘ کے نام سے کی گئی اور جو آسٹریا کی ثقافتی مشیر کے شریک حیات بتائے گئے، اور کہا گیا کہ وہ تہران کے مشرقی علاقے دمغان میں ’پتھروں کے نمونے جمع‘ کرنے گئے۔ ان پر تہران میں عسکری تنصیبات کی عکسبندی کا الزام بھی عائد کیا گیا۔

ایران میں اس وقت ایک درجن سے زائد غیر ملکی قید ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکن اس کو یرغمالی رکھنے کی پالیسی قرار دیتے ہیں جس کا مقصد مغرب سے رعایات حاصل کرنا ہے۔

بدھ کو بیلجیئم کی پارلیمان نے بھی ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ایک متنازع ٹریٹی کی منظوری دی ہے جس کے ابتدائی متن کو ابھی توثیق کی ضرورت ہے۔

بدھ ہی کو ایران کی عدلیہ نے مئی میں حراست میں لیے جانے والے فرانسیسی جوڑے پر ’ملک کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈالنے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔ تاہم فرانسیسی حکومت نے ان گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے ایران کے الزامات کو ’بےبنیاد‘ قرار دیا ہے۔

فرانس نے گرفتار افراد کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا