اراکین پنجاب اسمبلی لاہور کے پرتعیش ہوٹلوں میں کیا کر رہے ہیں؟

اپوزیشن اور حکومتی اراکین صوبائی اسمبلی کا کہنا ہے کہ انہیں ہوٹلوں میں رکھنے کی ایک وجہ سکیورٹی ہے جبکہ دوسری وجہ ہے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے آسانی کے ساتھ اسمبلی پہنچ سکیں۔

پنجاب پر حکمرانی کے لیے وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے قبل حکومت اور اپوزیشن نے ممبران اسمبلی کو لاہور کے ہوٹلوں میں منتقل کر رکھا ہے، جہاں انہیں امیدواروں کی جانب سے تمام سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب کل یعنی جمعے کو ہونے جا رہا ہے، جس میں حالیہ ضمنی انتخاب کے بعد مسلم لیگ ن کو اس وقت بڑا دھجکا پہنچا جب پاکستان تحریک انصاف نے 15 نشستیں جیت کر سب کو حیران کر دیا۔

اب پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب سے قبل ایک بار ممبران صوبائی اسمبلی سرخیوں میں ہیں اور دونوں ہی امیدواروں کی جانب سے بھرپور کوشش جاری ہے کہ ووٹ انہی کے حق میں پڑے۔

اس غرض سے لاہور کے دو بڑے ہوٹلوں میں اراکین اسمبلی کا رش لگا ہوا ہے، جہاں اراکین سارا دن گپ شپ کر کے وقت گزار رہے ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن نے دو ہوٹلوں میں سینکڑوں کمرے بک کرائے رکھے ہیں لیکن اخراجات اور بکنگ کے حوالے سے ہوٹل انتظامیہ اور پارٹی رہنما تفصیل بتانے سے گریز کر رہے ہیں۔

ہر قسم کی سہولیات سے آراستہ ایک ہوٹل ایئر پورٹ کے قریب واقع ہے جہاں حکمران اتحاد کے ارکین کو رکھا گیا ہے جبکہ اپوزیشن اتحاد کے ممبران لاہور کے مال روڑ پر واقع بڑے ہوٹل میں مقیم ہیں۔

ان ہوٹلوں کے باہر اور اندر ایک میلہ لگا ہے اور غیر معمولی گاڑیوں کی آمد و رفت دکھائی دے رہی ہے۔ کئی اراکین کی فیملیز بھی ملنے ہوٹلز میں آرہی ہیں اور بعض خواتین اراکین کے بچے بھی ہوٹلوں میں اپنی ماؤں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

مال روڑ پر واقع ہوٹل کی پارکنگ سے اندازہ ہوتا ہے جیسے گاڑیوں کی نمائش لگی ہے جبکہ ہوٹل کی لابی میں اراکین گھوم پھر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے گپ شپ میں مصروف ہیں۔

ان تمام اراکین کو دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ کسی پکنک پر آئے ہوں۔ تاہم ان تمام سہولیات کے ساتھ ساتھ ان اراکین کے موبائل جمع کرنے یا ان کی سخت نگرانی سے متعلق افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں۔

اپوزیشن اراکین کا کہنا ہے کہ ان کے نمبرز پورے ہیں، بلکہ کامل علی آغا رہنما ق لیگ نے تو یہاں تک دعویٰ کر دیا کہ انہیں 190 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ حالانکہ ان کے ابھی تک اراکین کی تعداد 187 تک پہنچی ہے جبکہ حکمران اتحاد کے 179 ہیں اور وہ بھی حکومت برقرار رکھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنا پلان ظاہر نہیں کر سکتے، تاہم انہیں کامیابی ضرور حاصل ہوگی کیونکہ ہوسکتا ہے اپوزیشن کے سات اراکین مستعفی ہو جائیں۔

اپوزیشن نے پہلی بار اپنے اراکین کو ہوٹل منتقل کیا ہے جبکہ حکمران اتحاد تیسری بار ہوٹلوں میں ممبران کو ٹھہرا رہا ہے۔

ان ممبران کو ہوٹلوں میں رکھنے کی ایک وجہ تو وزیر اعلیٰٰ پنجاب کے انتخاب سے قبل پاکستان تحریک انصاف اور ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات ہو سکتے ہیں۔

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما کہہ چکے ہیں کہ ان کے سب سے رابطے جاری ہیں جو ان کے مطابق ان کا سیاسی حق ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کے ارکان کو ’پیسوں‘ کی پیشکش کی جا رہی ہے۔

تاہم اپوزیشن اور حکومتی اراکین صوبائی اسمبلی کا کہنا ہے کہ انہیں ہوٹلوں میں رکھنے کی ایک وجہ سکیورٹی ہے جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے آسانی کے ساتھ اسمبلی پہنچ سکیں۔

پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے بار بار انتخاب سے ہوٹل مالکان کی بھی چاندی ہو رہی ہے اور امیدواروں پر ایک طرف امیدواروں کو ساتھ ملانے کے لیے پیسوں کے خرچ کا بوجھ دوسری جانب ہوٹلز کے اخراجات سے جیب ڈھیلی ہو رہی ہے۔

دونوں ہوٹلوں میں ممبران کی ذاتی گاڑیوں کے ساتھ بسیں بھی موجود ہیں جن پر ارکین کو اسمبلی لانے لے جانے کا بندوبست کیا گیا ہے۔

دونوں فریقین نے اپنے اراکین کو منگل سے ہوٹلوں میں منتقل کر رکھا ہے۔ لابیوں میں یہی گفتگو جاری ہے کہ کس کس سے مخالفیں کا رابطہ ہوا جبکہ امیدواروں کے حامی اپنے اراکین سے معلومات بھی لیتے دکھائی دے رہے ہیں اور یہ کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ کہیں کوئی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے کسی کے دباؤ میں تو نہیں۔

جیسے ہی کسی رکن کا فون بجتا ہے تو سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں جیسے کوئی انہونی ہوگئی ہو۔ متعدد قیادت کے قریب سمجھے جانے والے اراکین اپنے ممبران کو مسلسل اپنی قیادت کی خوبیاں بتانے میں مصروف دکھائی دیے۔

چھ، چھ، سات، سات کے گروپوں میں مختلف ٹیبلوں پر سجی یہ محفلیں وزیراعلیٰ کے انتخاب سے متعلق پراُمید ہیں اور یہ بھی غور کیا جا رہا ہے کہ حکومت ملی تو وزارتیں یا محکمے کون سے لینے چاہییں۔

بعض اراکین کی اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی قیادت کے زیادہ قریب ہونے کی کوششیں بھی جاری ہیں اور کئی اراکین ایسے بھی دکھائی دیے جو ادھر ادھر ٹائم پاس کر رہے ہیں۔

دونوں طرف پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس بھی جاری ہیں۔ ایسے ماحول دکھائی دیتا ہے جیسے وزیر اعلیٰ کے امیدوار دولہے اور سج سنور کر آئے مرد و خواتین اراکین مہمان دکھائی دیتے ہیں۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں ضمنی انتخاب میں نو منتخب اراکین اسمبلی نے حلف بھی اٹھا لیا ہے۔ دونوں طرف سے جوڑ توڑ کا سلسلہ بھی جاری ہے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی دوڑ نے سارا ماحول عدم اعتماد سے دوچار کر رکھا ہے۔

فریقین ایک دوسرے کے خفیہ کارڈز کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ دونوں طرف سے اراکین کی بولی لگانے کا بھی الزام لگایا جا رہا ہے لیکن زیادہ بے چینی اپوزیشن حلقوں میں دکھائی دیتی ہے کیونکہ انہیں بظاہر تو برتری حاصل ہو چکی ہے مگر ماضی میں ایوانوں میں اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی روایات کے پیش نظر الیکشن تک صورتحال غیر یقینی رہے گی۔

پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کا جاری 41واں اجلاس ہفتے کی دوپہر ایک بجے تک ملتوی کر دیا گیا جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے 40واں اجلاس جمعہ سہہ پہر چار بجے منعقد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

اجلاس میں سپیکر چوہدری پرویز الہی نے سپریم کورٹ کا وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست