پنجاب: سات پی ٹی آئی اراکین پہلی بار اسمبلی کا حصہ بنیں گے

لاہور کی چار نشستوں میں سے تین تحریک انصاف نے جیتیں، جس کے نتیجے میں تینوں امیدوار پہلی بار ایم پی اے بنیں گے۔

17 جولائی 2022 کو لاہور میں ضمنی انتخاب کے دوران ووٹرز ایک پولنگ سٹیشن میں ووٹ ڈال رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

پنجاب میں اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف نے حکمران مسلم لیگ ن کو حالیہ ضمنی انتخابات میں حیرت انگیز شکست دی، جس کے نتیجے میں سات پی ٹی آئی اراکین پہلی بار پنجاب اسمبلی کا حصہ بنیں گے۔

غیرسرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے 15 اور ن لیگ نے چار نشستیں حاصل کیں جبکہ ایک آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوئے ہیں۔

گذشتہ تین دھائیوں سے مسلم لیگ ن کا اس صوبے میں سیاسی راج رہا ہے۔ ان انتخابات میں ویسے تو ن لیگ نے 20 میں سے زیادہ ترنشستوں پر پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو ہی ٹکٹیں دیں مگر ان میں سے متعدد ناقابل شکست امیدوار بھی اس بار ہار گئے۔

حیران کن طور پر تحریک انصاف کی ٹکٹوں پر سامنے آنے والے سات امیدوار اس سے قبل رکن اسمبلی منتخب نہیں ہوئے اور وہ پہلی بار بااثر امیدواروں کو ہرا کر ایوانوں میں پہنچے ہیں۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کے نئے اور بظاہر کمزور امیدواروں کی ’الیکٹ ایبلز‘ کے مقابلے میں کامیابی عمران خان کے نظریے اور بیانیے کی جیت ہے۔ نئے لوگوں کو ایوانوں میں آنے کا موقع دینا اچھی روایت ہے مگرسوال یہ ہے کیا پی ٹی آئی آئندہ عام انتخابات میں بھی یہ روایت برقرار رکھے گی یا پھر 2018 کی طرح ایک بار پھر روایتی امیدواروں کو ہی ٹکٹ دے گی؟

جیتنے والے نئے امیدوار کون ہیں؟

پنجاب کے ضمنی انتخابات سے قبل پی ٹی آئی نے جب 20 حلقوں میں امیدواروں کو ٹکٹیں تقسیم کیں تو مبصرین نے نئے اور کمزور امیدواروں کو میدان میں اتارنے کی حکمت عملی پر شک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔

تحریک انصاف کی قیادت کا ماننا تھا کہ اس بار اپنی پارٹی کے نظریاتی امیدواروں کو ہی ٹکٹ دیے جائیں گے اوریہ حکمت عملی کامیاب ثابت ہوئی۔

ملک حسن اسلم

مختلف اضلاع سے کامیاب ہونے والے نئے امیدواروں میں خوشاب کے حلقہ پی پی 38 سے پی ٹی آئی کے ملک حسن اسلم خان 48475 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے ان کے مد مقابل آزاد امیدوار محمد آصف ملک 41752 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے۔

حالانکہ آصف ملک ن لیگ کی ٹکٹ پر اس حلقے سے کئی بار منتخب ہوچکے ہیں مگر اس بار ٹکٹ نہ ملنے پر آزاد امیدوار ہی رہے۔

ملک حسن اسلم پہلی بار ممبرصوبائی اسمبلی منتخب ہوئے ان کے والد ملک عمر اسلم خان اسی علاقے سے ایم این اے ہیں اور تحریک انصاف کے پرانے ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔

یہ گھرانہ تو سیاسی ہے مگر حسن اسلم پہلی بار میدان میں آئے اور ن لیگ سمیت آزاد مضبوط امیدوار کو شکست دے دی۔

علی افضل ساہی

پی پی 97 فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے نوجوان امیدوار علی افضل ساہی کو ٹکٹ ملی اور وہ 64865 ووٹ لے کرکامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل ن  لیگی امیدوار سابق صوبائی وزیرمحمد اجمل چیمہ نے 51631 ووٹ لیے اور وہ دوسرے نمبر پر رہے۔

اجمل چیمہ اس حلقے سے کئی بار منتخب ہوئے اور گذشتہ عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے جیت کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے پھر ترین گروپ کے ساتھ مل کر اپنی ہی حکومت ختم کرنے والوں میں شامل رہے۔

علی افضل ساہی بھی پہلی بار منتخب ہوئے ان کا تعلق بھی سیاسی گھرانے سے ہے وہ افضل ساہی کے بیٹے ہیں جو مختلف انتخابات میں حصہ لیتے رہے ہیں۔

خرم شہزاد ورک

پی پی 140 شیخوپورہ سے تحریک انصاف نے بالکل نئے امیدوارخرم شہزاد ورک کو ٹکٹ دیا وہ 50166 ووٹ لے کرجیتے جبکہ مسلم لیگ ن کے میاں خالد محمود نے 32105 ووٹ حاصل کیے۔

میاں خالد عام انتخابات میں اس حلقے سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے مگر اس بار نئے امیدوار سے شکست کھائی۔

خرم ورک شیخوپورہ بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں اور ان کا کسی سیاسی خاندان سے بھی تعلق نہیں انہوں نے پارٹی حمایت کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی اور پہلی بار ایوان میں حلقہ کی نمائندگی کریں گے۔

عامر اقبال شاہ

پی پی 224 لودھراں میں تحریک انصاف کے محمد عامر اقبال شاہ 69881 ووٹ لے کر جیتے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے زوار حسین وڑائچ نے 56214 ووٹ حاصل کیے۔

زوار وڑائچ اس حلقے سے عام انتخاب میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پرجیت کر صوبائی وزیر بنے ان کا تعلق ترین گروپ سے ہے اور حمزہ شہباز کو ووٹ دینے پر ڈی سیٹ ہوئے تھے۔

عامر اقبال شاہ اس حلقے کے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں مگر وہ خود پہلی بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کے والد اقبال شاہ اس علاقے سے جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو ن لیگ کی ٹکٹ پر شکست دے کر ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔

ن لیگ کی جانب سے ٹکٹ زوار وڑائچ کو ملنے پر یہ خاندان پی ٹی آئی میں شامل ہوا اور عامر اقبال کو ٹکٹ دلوا کر پہلی بار ایوان میں پہنچا۔

لاہور کی چار میں سے تین نشستیں پی ٹی آئی نے جیت لی

 لاہور کی چار نشستوں میں سے تین پر تحریک انصاف جیتی جن میں تینوں امیدواروں نے کامیاب ہو کر پہلی بار ایم پی اے کی نشستیں حاصل کیں۔

لاہور میں پنجاب اسمبلی کے حلقے پی پی 158 کی نشست پی ٹی آئی کے نام رہی اور میاں محمد اکرم عثمان کامیاب قرار پائے۔ وہ پارلیمانی لیڈر میاں محمودالرشید کے داماد ہیں پی ٹی آئی سے پرانی وابستگی ہے مگر رکن صوبائی اسمبلی پہلی بار منتخب ہوئے۔ ان کے مد مقابل تو ن لیگ کے رانا احسن شرافت تھے مگر علیم خان اس سیٹ سے حمزہ شہباز کی حمایت پر ڈی سیٹ ہوئے توعلیم خان کی حمایت بھی احسن شرافت کو حاصل تھی۔

اس حلقے سے  پی ٹی آئی امیدوار اکرم عثمان نے 36888 ووٹ حاصل کیے جبکہ ن لیگ کے رانا احسن 31447 ووٹ لے سکے۔

پی پی 167 لاہور کی سیٹ پر تحریک انصاف کے شبیر احمد نے 40175 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کرلی۔

ن لیگ کے نذیر چوہان 26306 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

نذیر چوہان عام انتخابات میں یہاں سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر منتخب ہوکر بعد میں ن لیگ میں شامل ہونے پر ڈی سیت ہوئے تھے۔ اس علاقے میں ایم این اے ن لیگ کی شائستہ پرویز ملک ہیں۔

شبیر احمد گجر نے پہلی بار بطور رکن اسمبلی کامیابی حاصل کی اس سے پہلے ان کے بھائی خالد گجر شہباز شریف کے مقابلے میں پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑتے رہے ہیں ۔

لاہور میں پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 170  میں پاکستان تحریک انصاف کے ملک ظہیر عباس 24688 ووٹ لے کر فاتح قرار پائے۔ مسلم لیگ ن کے محمد امین ذوالقرنین نے 17519 ووٹ حاصل کیے۔ امین ذوالقرنین مشیر وزیر اعظم عون چوہدری کے بھائی ہیں گذشتہ انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔

ظہیرعباس کھوکھر بھی پہلی بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اس حلقے میں کھوکھر برادری زیادہ رہائش پذیر ہے مگر وہ پہلی بار کامیاب ہوئے ہیں۔

ایک آزاد امیدوار کامیاب

پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں ایک حلقے میں آزاد امیدوار نے کامیابی حاصل کی۔ پی پی 228 لودھراں کے تمام 136 پولنگ اسٹیشنز کے غیر سرکاری و غیر حتمی نتیجے کے تحت آزاد امیدوار سید محمد رفیع الدین نے تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست دی۔

وہ 45020 ووٹ لے کر پہلے نمبر پر رہے جبکہ پی ٹی آئی کے عزت جاوید خان 38338 ووٹ لیے سکے۔

بیانیہ اور مقامی سیاست انفرادی حیثیت پر حاوی کیسے رہے؟

تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان نے حکومت تبدیلی کے بعد امریکی سازش اور کرپشن کا جو بیانیہ بنایا وہ اتنی شدت سے لوگوں کے دل و دماغ میں بیٹھایا کہ پی ٹی آئی کے کمزور امیدواروں کے سامنے ن لیگ کے مضبوط امیدوار بھی نہیں ٹھہر پائے۔

دوسرا ن لیگ کے اپنے امیدواروں نے ان منحرف امیدواروں کی بھر پور حمایت نہیں کی جس سے ن لیگی امیدوار کامیاب نہیں ہوسکے۔

تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار ن لیگ کے مقابلے میں کافی کمزور سمجھے جارہے تھے مگر عمران خان کے بیانیے اور مہنگائی کی وجہ سے کمزور امیدوار بھی کامیاب ہوگئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو ووٹ ملے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’اس الیکشن میں عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ مخالف اور حکومت سازش سے ختم کرنے کا جوبیانیہ اپنایا اس سے موثر انداز میں عوام کو اپنے ساتھ کھڑا کر لیا جبکہ حکمران اتحاد اس بیانیے کو چھوڑ کر مشکل فیصلے کر کے سیاسی نقصان کر بیٹھا۔‘

سلمان غنی کے مطابق ان 20 حلقوں میں طے شدہ معاہدے کے مطابق ٹکٹیں کیونکہ منحرف اراکین یا ان کے رشتہ داروں کو دی گئیں تو اس لیے انہوں نے حلقوں میں نئے امیدواروں کو ’دل سے سپورٹ‘ نہیں کیا جس کا نقصان شکست کی صورت اٹھانا پڑا۔

سیاسی تجزیہ کار تنزیلہ مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضمنی انتخاب کے دوران جس طرح عمران خان اور دیگر رہنماؤں نے مہم چلائی خاص طور پر حکومت مخالف جو بیانیہ کھڑا کیا وہ غلط تھا یا سہی لیکن عوام میں اسے پذیرائی ضرور مل گئی۔ ’کیونکہ عمران خان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی بھی ایشو پر اتنی سختی سے قائم رہتے ہیں کہ وہ سچ لگنے لگتا ہے عوام اتنی باشعور نہیں کہ گہرائی سے ایشو کو سمجھ سکے۔‘

ان کے بقول حکمران اتحاد اس بیانیے اور سابق حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں مشکل فیصلوں کی وجوہات موثر انداز میں لوگوں کو نہیں سمجھا سکا۔

’اکیلی مریم ایسی مہم کا مقابلہ کرتی دکھائی دی جبکہ ن لیگ خاص طور پیپلز پارٹی کہیں ایسا کرتی دکھائی نہیں دی۔‘

تنزیلہ نے کہا کہ ان کے خیال میں میڈیا ٹرائل ہو یا سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ ہر طرف پی ٹی آئی چھائی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

انہوں نے کہا: ’مہنگائی بھی ایک وجہ تھی مگر حکومت یہ نہیں سمجھا پائی لوگوں کو کہ یہ سابقہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست