میچ کی طرح بینچ فکسنگ بھی جرم ہے: مریم نواز

اسلام آباد میں حکومتی اتحاد کے رہنماؤں کا مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے الیکشن اور آرٹیکل 63 اے سے متعلقہ معاملے پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ

سپریم کورٹ میں سماعت سے قبل حکومتی اتحاد کے رہنماؤں نے پیر کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے الیکشن اور آرٹیکل 63 اے سے متعلقہ معاملے پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ دہرایا، تاہم اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کے مطابق یہ پریس کانفرنس ’سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کی کوشش‘ ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والی اس پریس کانفرنس میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز، جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔

پریس کانفرنس کا آغاز مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز نے کیا، جنہوں نے ’بینچ فکسنگ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اسے ایک ’جرم‘ قرار دیا اور کہا کہ ہمارے ہاں انصاف کے نظام کا حال یہ ہے کہ ’جب کوئی پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ بینچ کون سا ہے اور وہ بینچ کیا فیصلہ دے گا۔‘

مریم نواز نے کہا: ’مجھے میرے ہمدردوں نے مشورہ دیا کہ آپ یہ پریس کانفرنس نہ کریں کیونکہ اس سے آپ کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت اپیل پر اثر پڑ سکتا ہے تاہم میں نے انہیں جواب دیا کہ عوام کے سامنے حقائق سامنے رکھنے چاہییں۔‘

انہوں نے کہا: ’کسی بھی ادارے کی توہین باہر سے نہیں، ادارے کے اندر سے ہوتی ہے اور ٹھیک اور انصاف پر مبنی فیصلے پر جتنی تنقید کی جائے، وہ معنی نہیں رکھتی۔‘

یہ پریس کانفرنس، جسے قومی سطح پر ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیا گیا، کے حوالے سے عدلیہ کی جانب سے ابھی کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم سپریم کورٹ کی سکیورٹی سخت رہی اور رینجرز اہلکار تعینات نظر آئے۔

پریس کانفرنس کے دوران پنجاب کی سیاسی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا: ’پچھلے دنوں پنجاب کے وزیراعلیٰ کے الیکشن میں حمزہ شہباز جیتے لیکن قوم نے دیکھا کہ چھٹی کے دن رجسٹرار آفس کھلا، جب پٹیشن مانگی گئی تو پی ٹی آئی نے کہا کہ پٹیشن ابھی تیار ہو رہی ہے۔‘

مریم نواز نے الزام عائد کیا کہ ہمارے ہاں انصاف کے نظام کا حال یہ ہے کہ ’جب کوئی پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ بینچ کون سا ہے اور وہ بینچ کیا فیصلہ دے گا۔‘

لاہور میں ہائی کورٹ کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کو طلب کیے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا: ’قومی اسمبلی کے سپیکر قاسم سوری کو تو طلب نہیں کیا گیا لیکن پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کو طلب کیا گیا۔‘

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’ق لیگ کے 10 ووٹ عمران خان کی جھولی میں ڈال دیے گئے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مریم نواز نے الزام عائد کیا کہ’ سپریم کورٹ نے اپنے ہی حالیہ فیصلے بدل دیے۔‘

پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ انہوں نے پاکستان کے ہر شعبے میں تباہی کی اور معیشت کو وینٹی لیٹر پر چھوڑ دیا۔ ’عمران خان کو پہلے بھی ہر طرح کی آزادی تھی اور اب بھی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جس طرح میچ فکسنگ ایک جرم ہے بینچ فکسنگ بھی جرم ہے۔‘

مریم نواز نے مزید کہا کہ ’عمران خان نے کون سے جرم کا ارتکاب نہیں کیا، لیکن کسی عدالت میں ان کے خلاف از خود نوٹس لینے کی ہمت ہے؟ عمران خان نے حال ہی میں جب دھرنے کی کال دی اور سپریم کورٹ نے انہیں ڈی چوک آنے سے منع کیا لیکن وہ آئے، ایسے میں اگلے روز سپریم کورٹ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ عدالتی فیصلہ ٹھیک سے عمران خان تک نہ پہنچا ہو۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’آپ اندازہ لگائیں اگر آج یہاں بیٹھی جماعتوں میں سے کوئی یوں ڈی چوک میں ہنگامہ آرائی کرتا تو ان کا کیا حال ہوتا۔‘

مریم نواز نے کہا کہ ’شہباز شریف جب وزیراعظم بنے تو ان کا حق تھا کہ وہ بطور ملک کے سربراہ اپنی مرضی سے تقرریاں کریں لیکن ان کے خلاف از خود نوٹس لیا گیا، جس سے دنیا میں تاثر گیا کہ شہباز شریف اپنے خلاف کیسز کی وجہ سے یہ تقرریاں کر رہے ہیں۔ عمران خان کے وقت پر ازخود نوٹس کیوں نہیں لیے گئے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی رہنما شیریں مزاری کے لیے تو رات کو عدالت کھل جاتی ہے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینہ عیسیٰ اور مجھے تو کوئی ریلیف نہیں ملا۔

ساتھ ہی انہوں نے سابق وزیراعظم عمران خان کی بہن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’مریم نواز تو ڈیتھ سیل میں رہ کر آ جاتی ہے لیکن علیمہ خان کو صرف جرمانہ عائد کیا جاتا ہے یہ دہرا معیار کیوں۔ علیمہ خان پر تو کوئی از خود نوٹس نہیں ہوا لیکن میرے پاسپورٹ مانگنے پر ایک دن میں بینچ ٹوٹے اور بنے یا پھر ریلیف لے لیا گیا۔‘

بقول مریم نواز: ’ہمارا نام ای سی ایل سے نکالا جائے تو سب کو لائن حاضر کر دیا جاتا ہے۔‘

پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا: ’میں موجودہ لولی لنگڑی حکومت کو کچھ نہیں سمجھتی، میں تو آج اس سے نکلنا چاہوں گی۔ ہم نے ایسی قربانیاں دی ہیں جو ریورس نہیں ہو سکتیں۔‘

انہوں نے عمران خان کے خلاف موجودہ حکومت کی کارروائی سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں کہا ’ہم عدالتوں سے باہر نکلیں گے تو کوئی اور کام کریں گے، ہم پہلے مقدمات بھگت لیں پھر اور کچھ کر لیں گے۔‘

عدالت سے فیصلے کا حق نہیں چھین رہے، فل کورٹ چاہتے ہیں: مولانا فضل الرحمٰن

مریم نواز کے بعد جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’مریم نواز کی گفتگو کو ہم سپورٹ کرتے ہیں اور یہ ہماری متفقہ رائے ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہم عدالت سے فیصلے کا حق نہیں چھین رہے۔ بس یہ چاہتے ہیں کہ ایک فل کورٹ بنایا جائے کیونکہ جتنی اجتماعیت ہوگی، اتنا ہی فصلہ میرٹ کی بنیاد پر ہوگا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: قوم کو اس قدر نہ اکسائیں کہ وہ بغاوت کی طرف چلی جائے۔‘

بقول مولانا فضل الرحمٰن: ’ہم اس ملک کے شہری ہیں، اس ملک سے ہماری وفاداری ہے۔‘

ہمیں فل کورٹ چاہیے: بلاول بھٹو زرداری

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری  نے بھی فل کورٹ بنانے پر زور دیتے ہوئے کہا: ’ہمیں فل کورٹ چاہیے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے نام لیے بغیر کیا: ’یہ نہیں ہوسکتا کہ تین شخص ہمارے ملک کا فیصلہ کریں۔‘

بلاول کا کہنا تھا: ’ہم چاہتے ہیں کہ جمہوری نظام چلے اور ہمیں نظر آرہا ہے کہ کچھ قوتوں کو یہ ہضم نہیں ہو رہا کہ پاکستان جمہوریت کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے اور پاکستان کے عوام خود اپنے فیصلے کر رہے ہیں۔‘

پریس کانفرنس کے دوران پاکستان مسلم لیگ ق کے منحرف رکن چوہدری طارق بشیر چیمہ نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ فل کورٹ تشکیل دے۔ ان کا کہنا تھا: ’اگر قوانین بنانا پارلیمنٹ کا اختیار نہیں تو فیصلہ کر دیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے امید ظاہر کہ سپریم کورٹ فل کورٹ کا مطالبہ مانے گی۔

حکمران اتحاد کی اعلیٰ قیادت نے اتوار کو فیصلہ کیا تھا کہ وہ آج چیف جسٹس کی قیادت میں کیس سننے والے بینچ کے سامنے پیش ہوں گے، تاہم آج پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ نے پریس کانفرنس میں شریک رہنماؤں کے عدالت میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے آج سپریم کورٹ کے رجسٹرار دفتر میں پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے الیکشن اور آرٹیکل 63 اے سے متعلقہ معاملے میں فل کورٹ کی تشکیل کے لیے فریق بننے کی پٹیشنز بھی دائر کی ہیں۔

آج کی پریس کانفرنس سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کی کوشش: فواد چوہدری

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے حکومتی اتحاد کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ’حکومت نے سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی، جو اس کی روایت رہی ہے۔‘

اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران فواد چوہدری نے کہا: ’حکومت کی آج کی پریس کانفرنس ان کا سامان باندھ کر روانگی کا اعلان تھا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ 22 کروڑ لوگ سپریم کورٹ سے انصاف مانگ رہے ہیں اور انشا اللہ انصاف ہوتا نظر آئے گا۔

پریس کانفرنس میں شریک شیریں مزاری نے اپنی گفتگو میں دعویٰ کیا کہ مریم نواز نے ’امپورٹڈ حکومت کو ٹیک اوور‘ کر لیا ہے کیونکہ انہوں نے ایک عام شہری اور مجرم ہونے کے باوجود وزیراعظم سیکریٹریٹ میں بیٹھ کر پریس کانفرنس کی۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے مریم نواز کو ضمانت دے کر ہمدردی کی لیکن وہ ’چھوٹے بچوں کی طرح چیخ و پکار کر رہی ہیں کہ جو میں چاہتی ہیں وہ کرو۔‘

آرٹیکل 63 اے کا معاملہ

آئین کے آرٹیکل 63 اے کا معاملہ اس وقت اٹھا جب پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے 22 جولائی کو وزارت اعلیٰ کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ق کے ووٹ یہ کہہ کر مسترد  کر دیے کہ ووٹ پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت کی ہدایات کے خلاف ڈالے گئے۔

ڈپٹی سپیکر کے مطابق انہوں نے 16 اپریل کو وزارت اعلیٰ کے الیکشن پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی روشنی میں ووٹ مسترد کیے ہیں۔

بعد ازاں وزارت اعلیٰ کے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی نے جمعے کی رات سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو چیلنج کیا۔

ہفتے کی دوپہر پٹیشن کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر کا اقدام سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کی ریفرنس میں فیصلے کے خلاف نظر آتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان