سپریم کورٹ نے حکومتی اتحاد کی فل کورٹ کی درخواست مسترد کر دی

سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ پر حکومتی اتحاد کی جانب سے فل کورٹ کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب سے متعلق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پر سماعت پیر کو سپریم کورٹ میں ہوئی (اے ایف پی)

سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ پر حکومتی اتحاد کی جانب سے فل کورٹ کی درخواست مسترد کر دی ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حکومتی اتحاد کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق کیس کی سماعت منگل کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کر دی ہے۔

سپریم کورٹ میں پیر کی شب دوسرے وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سپریم کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے اتحادی حکومت اور دیگر فریقین کی فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔

عدالت کا مختصر فیصلے میں کہنا تھا کہ ’ہم نے تمام وکلا کے دلائل کو سنا۔ آرٹیکل 63 اے پر سوال تھا کہ پارٹی ہیڈ اپنے اراکین کو ووٹ کا کہہ سکتا ہے یا نہیں۔‘

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’17 مئی کو مختصر فیصلے میں 63 اے کے تحت منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں ہوں گے۔ ڈپٹی سپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر انحصار کرتے ہوئے جو رولنگ دی اس پر چوہدری شجاعت اور حمزہ شہباز کے وکیل نے دلائل کے لیے مہلت طلب کی تھی۔‘

اس سے قبل چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’فل کورٹ تب بنائی جاتی ہے جب بہت سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہو۔ یہ پیچیدہ کیس نہیں ہے، آرٹیکل 63 اے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے۔‘

چیف جسٹس نے پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران کہا کہ ’ہم کیس میرٹ پر سنیں گے۔ آج سوشل میڈیا حقائق کے بجائے تاثر کو دیکھتا ہے مگر ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے۔ اس عدالت نے ضمیر کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے، اگر یہ معاملہ تجاوز کا ہوا تو ممکن ہے فُل کورٹ بن جائے، لیکن فل کورٹ تب بنائی جاتی ہے جب بہت سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہو۔ یہ پیچیدہ کیس نہیں ہے۔‘

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’ہم نے جمہوریت کو آگے لے کر جانا ہے، ہم نے اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔ لیکن ارکان پارلیمان جب غیر آئینی حرکت کریں گے تو معاملہ عدالت میں آئے گا۔‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہمارے ملک میں گورننس کابہت بڑا ایشو ہے، ہم نے وفاقی حکومت کے کیس میں ازخود نوٹس لیا، کیونکہ ہماری نظر میں ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی تھی، لیکن پنجاب کے معاملے پر ہم نے ازخود نوٹس نہیں لیا بلکہ آئینی درخواست دائر ہوئی۔‘

اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’ہم اتحادی حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مرضی کے جج کی کوئی بات نہیں کر رہا۔‘

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے وزیر قانون سے کہا کہ ’کیا آپ فورم شاپنگ چاہتے ہیں؟ ابھی ہم نے دیکھنا ہے کہ لارجر بینچ بنائیں یا فُل کورٹ؟‘

چیف جسٹس فل کورٹ کی استدعا پر وزیر قانون کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ دلائل نہیں دینا چاہتے تو ہم لکھ دیتے ہیں۔ آپ کو آئین کو ڈس اون نہیں کرنا چاہیے۔ ہم آئین اور میرٹ پر کیس کو سن رہے ہیں۔‘

اس پر وزیر قانون نے مزید کہا کہ ’اگر نظرثانی منظور ہوئی تو آرٹیکل 63 اے پہلی شکل میں بحال ہوجائے گا۔ نظر ثانی منظور ہونے پر رن آف الیکشن بھی ختم ہو جائے گا۔‘

وقفے کے بعد عرفان قادر نے عدالت سے کہا کہ موکل سے فل کورٹ پر ہی بات کرنے کی استدعا کرنے کی ہدایت ملی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر عدالت فل کورٹ پر دلائل نہیں سننا چاہتی تو میں چلا جاتا ہوں۔

اس موقع پر چوہدری پرویز الہی کے وکیل علی ظفر نے دلائل میں اصرار کیا کہ یہی بینچ کیس کو سنے۔

’آپ پورا میڈیا دیکھ لیں ایک تاثر جو ابھر رہا ہے وہ یہی ہے کہ جج صاحبان ایک بینچ میں کیس سنیں گے تو سوال اٹھیں گے۔‘

عرفان قادر نے کہا کہ میں آپ کی ساکھ یا عدالت کی غیر جانبداری پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن تاثر ابھر رہا ہے۔ بینچ کے رویے میں مجھے آج ناراضگی بھی نظر آئی ہے۔ اگر ایسا ہلکا سا شائبہ بھی رویے میں آ جائے تو اس سے متعلقہ جج کو بینچ سے معذرت کر لینی چاہیے۔

عرفان قادر نے عدالت سے کہا کہ آپ نے کہا تھا ملک بحران کا شکار ہے، سیاستدان اکٹھے ہو جائیں، ’تو ابھی ہمارا ملک معاشی بحران کا بھی شکار ہے تو جج تو کم از کم ایک صفحے پر اکٹھے ہو جائیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کی بات درست تھی کہ سیاسی لوگ آپس میں فیصلے کریں تو ملک کے حالات مختلف ہو سکتے ہیں۔

’اگر عدلیہ متفق ہو جائے تو بھی کافی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ وزیر قانون نے بھی اسی نقطے پر عدالت سے درخواست کی ہے۔ ہم نے آنا ہے اور چلے جانا ہے لیکن ادارے برقرار رہیں گے۔ فل کورٹ معاملے پر عدالت فیصلہ دے تو نظرثانی دائر کروں گا لیکن جلد بازی میں مقدمے کا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس معاملے پر حکومتی اتحاد نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ اس کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جائے۔

سپریم کورٹ میں سماعت سے قبل حکومتی اتحاد کے رہنماؤں نے پیر کو ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے الیکشن اور آرٹیکل 63 اے سے متعلقہ معاملے پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ دہرایا تھا۔

مریم نواز نے پریس کانفرنس میں ’بینچ فکسنگ‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے اسے ایک ’جرم‘ قرار دیا اور کہا کہ ’ہمارے ہاں انصاف کے نظام کا حال یہ ہے کہ جب کوئی پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتہ ہوتا ہے کہ بینچ کون سا ہے اور وہ بینچ کیا فیصلہ دے گا۔‘

سپریم کورٹ میں جاری سماعت میں وقفے کے دوران مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ اگر فل کورٹ بینچ تشکیل نہ دیا گیا تو وہ کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے۔

مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر فل کورٹ تشکیل نہیں دیا جاتا تو ہم کارروائی کا بائیکاٹ کریں گے۔‘

انہوں کہا کہ ’اگر فل کورٹ تشکیل نہ دیا گیا تو حمزہ شہباز بھی اس کیس میں پارٹی نہیں بنیں گے۔‘

وقفے سے پہلے تین گھنٹے کی سماعت میں کیا ہوا؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پیر کو سماعت کی۔

سماعت ایک بجے شروع ہونا تھی لیکن کچھ تاخیر سے ایک بج کر 18 منٹ پر شروع ہوئی۔ سماعت کے آغاز میں سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی روسٹرم آئے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ہم دیکھ رہے ہیں کافی صدور یہاں موجود ہیں۔‘

سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی نے عدالت سے کہا کہ بحران گہرے ہوتے جا رہے ہیں، پورا سسٹم داؤ پر لگا ہوا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سسٹم کا حصہ عدلیہ اور پارلیمان بھی ہیں۔ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے کر تمام مقدمات کو یکجا کرکے سنا جائے۔‘

صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ ’ہم اس ادارے کا حصہ ہیں اور عدالت کے تقدس اور احترام کے محافظ ہیں۔ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن مناسب ہوگا آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق اپیل پہلے سنی جائے۔‘

چیف جسٹس نے جواباً کہا کہ ’اتنی کیا جلدی ہے احسن صاحب پہلے کیس تو سن لیں۔‘

دریں اثنا پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی روسٹرم پر آ کر کہا کہ پیپلزپارٹی نے وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں ووٹ بھی دیا ہے۔

چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ آپ کا موقف بھی سن لیں گے، آپ نشست پر بیٹھیں کوئی آپ کی سیٹ ہی نہ لے لے۔
فاروق ایچ نائیک نے ذومعنی انداز میں کہا کہ ’کرسی آنی جانی چیز ہے، انسان کو اپنے پاؤں پر پکا رہنا چاہیے۔‘

چیف جسٹس نے جواب دیا: ’ایسی باتیں کرنے والے کی کرسی اکثر چلی جایا کرتی ہے۔‘

ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر کے دلائل

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ڈپٹی سپیکر کے وکیل عدالت میں ہیں؟ جس پر ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر روسٹم پر آئے اور کہا کہ ’درست فیصلے پر پہنچنے کے لیے عدالت کی معاونت کروں گا۔‘ 

عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ واضح ہونا چاہیے کہ جس قانونی سوال پر سماعت ہو رہی ہے وہ کیا ہے۔ جس سوال پر سماعت ہو رہی وہ بتانا میرا کام نہیں عدالت تعین کرے۔ معاملہ شاید پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات کا ہے۔

انہوں نے عدالت سے کہا کہ عدالت کا سوال سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن سمجھ نہیں پا رہا۔ ’چاہتا ہوں کہ عدالت اپنا سوال واضح کرے تاکہ سمجھ آ سکے، بلکہ عدالت اپنا سوال لکھ لے وقفے کے بعد دوبارہ سماعت ہو سکتی ہے۔‘

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ عدالت کی بات سن لیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے سرزنش کرتے ہوئے ذرا سخت لہجے میں عرفان قادر سے کہا کہ ’آپ عدالت کی بات نہیں سن رہے۔ دوبارہ آپ نے ججز کی بات کے دوران مداخلت کی تو نشست پر بٹھا دیں گے۔ عدالت کی بات دھیان سے سنیں۔‘

عرفان قادر نے کہا کہ آپ کو شاید وکلا کو ڈانٹنے کا حق حاصل ہے۔ عدالت جتنا بھی ڈانٹ لے میں خاموش رہوں گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم کسی کو ڈانٹ نہیں رہے، محترم کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔‘

عرفان قادر نے عدالت کے سخت لہجے پر مزید کہا کہ عدالت کو انسان کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ ہم یہاں لڑائی کرنے نہیں آئے بلکہ دلائل اور توجیحات کے لیے آئے ہیں آپ مجھ سے ناراض ہو گئے تھے، آپ ناراض نہ ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا ’نہیں ہم ناراض نہیں ہیں آپ دلائل جاری رکھیں۔‘

جسٹس منیب اختر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ’جو نقطہ آپ اٹھانا چاہ رہے ہیں وہ ہم سمجھ چکے ہیں۔ مناسب ہوگا اب کسی اور وکیل کو موقع دیں۔‘

حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان کے دلائل

وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے دلائل دینا شروع کیے تو جسٹس اعجاز الاحسن نے انہیں کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ دیا وہ بتائیں۔

منصور اعوان نے کہا کہ وہ تحریری جواب جمع کروا چکے ہیں۔ انہوں نے عدالت کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ مسترد ہو جائے گا، یہی نقطہ ہے۔

جسٹس منیب اختر اور بینچ نے حمزہ شہباز کے وکیل پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ ریکارڈ کے مطابق خط ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا حصہ تھا، کیا ووٹنگ سے پہلے چوہدری شجاعت کا خط ایوان میں پڑھا گیا تھا؟ منصور اعوان نے جواب دیا کہ اس حوالے سے میرے پاس معلومات نہیں ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کا موقف ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی تشریح درست ہے۔ اگر عدالتی فیصلہ غلط ہے تو ووٹ مسترد بھی نہیں ہو سکتے۔

منصور اعوان نے عدالت سے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے پہلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ہدایات عمران خان نے دی تھیں۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کی ہدایات پر ارکان کو منحرف قرار دیا یہ کہتے ہوئے منصور اعوان نے عمران خان کی ایم پی ایز کو ہدایت بھی عدالت میں پیش کر دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں کیس شوکاز جاری نہ ہونے کا تھا۔ اپیل میں بھی منحرف ارکان نے یہی موقف اپنایا ہے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے دلائل میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ تمام پارٹی اراکین کو چوہدری شجاعت کا خط اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی موصول ہو گیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعلیٰ پنجاب انتخاب سے پہلے اور اب کے کیس میں فرق ہے، الیکشن کمیشن میں ارکان کا موقف تھا کہ انہیں پارٹی ہدایت نہیں ملی، موجودہ کیس میں ارکان کہتے ہیں پارلیمانی پارٹی نے پرویز الہی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ پارلیمانی پارٹی ہدایت کے نقطے پر کسی فریق نے اعتراض نہیں کیا۔‘

پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کے دلائل

پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’ڈپٹی سپیکر نے نتائج سنانے کے بعد چوہدری شجاعت کا خط لہرایا۔ خط لہرانے کے بعد عدالتی فیصلے کا حوالہ دے کر ق لیگ کے ووٹ مسترد کیے گئے۔ ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل 63 اے پر بھی انحصار کیا۔‘

چیف جسٹس نے علی ظفر سے کہا کہ ’ہمیں اس نکتے پر دلائل دیں کہ ہمیں فل کورٹ بنانی چاہیے کہ نہیں؟ کیونکہ باقی وکلا نے فل کورٹ کے لیے دلائل دیے ہیں۔‘

فل کورٹ کے حوالے سے علی ظفر نے کہا ’ہمیں تین رکنی بینچ پر بھی اعتماد ہے۔ فل کورٹ سے عدالت کو دوسرا سارا کام روکنا پڑتا ہے۔ عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے۔ فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کی صوابدید ہے۔ کیا تمام عدالتی کام روک کر فل کورٹ ایک ہی مقدمہ سنے؟ گذشتہ 25 سال میں فل کورٹ صرف تین یا چار کیسز میں بنا ہے۔ گذشتہ سالوں میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا 15 مقدمات میں مسترد ہوئیں۔‘

چیف جسٹس نے بھی تائید کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ نہ بنانے سے دیگر مقدمات پر عدالت کا فوکس رہا۔ مقدمات پر فوکس ہونے سے ہی زیر التواء کیسز کم ہو رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان