جب باپ، بھائی ہی ظالم ہو جائیں

  میں پھر کہتی ہوں کہ اگر آج اس گھناؤنے گناہ کی طرف سوال نہ اٹھائے گئے تو پھر اخلاقی گراوٹ کی روک تھام کے لیے کوششیں کم پڑ جائیں گی۔

(روئٹرز)

سوشل میڈیا بھی عجیب چیز ہے۔ ہر جھوٹی سچی خبر کا ذریعہ، حقیقی اور غیرحقیقی کہانیاں سناتا ہوا۔ کچھ کہی اَن کہی داستانیں بھی واضح طور پر سناتا ہوا، کبھی کبھار خوش اور کبھی غمگین کر جاتا ہے۔

ظاہر ہے سوشل میڈیا یہ کہانیاں اسی معاشرے سے اٹھاتا ہے۔ کوئی حساس دل رکھنے والا حقوق انسانی کی پامالی پر خاموش رہنے سے انکار کر دیتا ہے اور ظلم کی داستان، ناانصافی کے واقعات دنیا کو نہ صرف سناتا ہے بلکہ کسی نہ کسی تصویر یا ویڈیو کی صورت میں دکھا بھی دیتا ہے۔

جاگیرداروں، وڈیروں، سیاستدانوں اور بااثر افراد کی جانب سے وقتاً فوقتاً ظلم کی داستانیں سوشل میڈیا پر آپ سب نے دیکھ رکھی ہوں گی کیونکہ اب تو الیکٹرانک میڈیا بھی سوشل میڈیا سے مواد اٹھاتا ہے۔ کوئی نیوز بلیٹن اس سے خالی نہیں ہوتا اور اس کا اثر معاشرے پر پڑتا ہے۔ یوں عدالتیں ازخود نوٹس بھی لیتی رہتی ہیں۔ ایسے کئی واقعات آپ سب نے ٹی وی پر دیکھے ہوں گے۔

لیکن کیا کیجیے ان مظالم کا جو ایک ہی گھر میں رہنے والے افراد ایک دوسرے پر ڈھاتے ہیں۔ حیران ہونے کی ضرورت نہیں، ہمارے معاشرے میں گھریلو جھگڑوں پر بھائی بھائی، ماں باپ اور بچوں تک کو قتل کر دیتے ہیں لیکن چند روز قبل سوشل میڈیا پر تصویر کے ساتھ ایک ایسی خبر آئی کہ رونگھٹے کھڑے ہوگئے۔ دل سے بےاختیار آہ نکلی اور ساتھ ہی شکوہ کہ اے خدا تو کہاں تھا اُس وقت جب یہ ظلم ہو رہا تھا؟ خبر یہ تھی کہ اسلام آباد کے ایک رہائشی علاقے میں باپ نے اپنی پانچ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کی۔ پولیس نے اس کو گرفتار بھی کرلیا۔ اس بچی اور اس جیسی کئی معصوم بچے بچیاں اکثر گھروں میں ہی جنسی زیادتی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادتی کرنے والے عموماً قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے کے واقعات نے دکھایا کہ زیادتی کرنے والے باپ نکلے۔ اکثر نے زیادتی کا سلسلہ جاری رکھا اور بچیاں حاملہ ہوگئیں۔ دارالحکومت اسلام آباد میں گذشتہ دو ماہ میں اس نوعیت کا یہ چوتھا واقعہ ہے۔

جب بھی کبھی ان گھناؤنے مسائل پر آواز اٹھائی تو اکثر سننے کو ملا کہ خواتین اور لڑکیوں کا لباس تو دیکھیں؟ ایسا لباس جس میں نہ صرف چھاتیوں کے ابھار بلکہ پورے جسم کا ایک ایک ابھار نظر آتا ہے جو مردوں کو اشتعال دلاتا ہے کہ وہ جنسی زیادتی کے مرتکب ہوں۔ چلیں ایک لمحے کے لیے مان لیتے ہیں کہ ابھار چاہے کہیں پر بھی ہو، انسانی ابھار ہو یا غیر انسانی ابھار، وہ مردوں کی مردانگی کے لے ایک چیلنج بن جاتا ہے لیکن پوچھنا یہ تھا کہ ان چوٹی چھوٹی بچیوں کے جسم پر باپوں نے کون سے ابھار دیکھ لیے تھے؟ مسئلہ لباس کا تھا؟ مسئلہ ابھاروں کا تھا یا ذہنی پستی کا؟ جس نے ایک خطرہ اور شک ان کی زندگی میں پیدا کردیا ہے کہ اب اپنی بیٹی یا بیٹے کو اسی کے باپ کے پاس تنہا نہیں چھوڑنا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پچھلے رمضان میں بھی ایک ایسی ہی دل دہلا دینے والی خبر سوشل میڈیا پر شئیر ہوئی جس نے راتوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دیں۔ خبر وہ بھی کچھ ایسی ہی تھی بس یہاں پر زیادتی کرنے والا باپ نہیں بلکہ تین سگے بھائی تھے۔ بھائی جو چار سال سے مبینہ طور پر اپنی 11 سالہ بہن سے زیادتی کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر طوفان بپا ہوا اور یوں ان تین قاری بھائیوں کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ راولپنڈی کی معصوم بچی ہو یا گولڑہ میں اپنے سگے شادی شدہ تین قاری بھائیوں کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہونے والی بچی یا پھر اسلام آباد کی معصوم پانچ سالہ کلی۔ ان جیسی کئی معصوم بچیوں پر گھر میں ہونے والی زیادتیوں خصوصاً باپ اور بھائیوں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہونے والے بچے بچیوں نے پاکستانی معاشرے پر کئی سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ ہمارا نام نہاد معاشرہ کس نہج پر چل پڑا ہے اور اس کے پیچھے کون سی ذہنی بیماریاں یا فرسٹریشنز ہیں؟ آخر اس فرسٹریشنز کے پیچھے کیا اسباب ہیں اور ایسے کون سے عوامل ہیں جن سے متاثر ہو کر باپ یا بھائی یا قریبی رشتہ دار بچوں پر یہ دنیا تنگ کر دیتے ہیں؟ یہ ظلم کرتے ہوئے نہ تو ان کو اسلام یاد آتا اور نہ ہی قرانی تعلیمات۔ جب معاشرے کے بگاڑوں اور بیماریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سوالات اٹھائیں تو لوگ دفاع میں کہتے ہیں کہ ایسا کہاں نہیں ہوتا اور لکھنے والوں نے یا سوالات اٹھانے والوں نے مبالغہ آرائی کی ہے۔

 میں پھر کہتی ہوں کہ اگر آج اس گھناؤنے گناہ کی طرف سوال نہ اٹھائے گئے تو پھر اخلاقی گراوٹ کی روک تھام کے لیے کوششیں کم پڑ جائیں گی۔

معاشروں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری معاشروں پر ہی ہوتی ہے۔ انفرادی طور پر معاشرے کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے اردگرد کے حالات و واقعات پر نظر رکھتے ہوئے بھرپور طریقے سے اپنی ذمہ داری نبھائیں اور ایسے گھناؤنے کرداروں کو قانون کے ذریعے کیف کردار تک پہنچائیں۔ حقوق انسانی کی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں سے بھی درخواست ہے کہ معاشرے کی اس بڑھتی ہوئی بیماری اور فرسٹریشن کی روک تھام کے لیے تربیت اور آگاہی کے پروگرام محلے کی نچلی سطح تک لے کر جائیں اور عوام میں رشتوں کے تقدس کا شعور پیدا کریں۔ ہمارے تعلیمی ادارے بھی اس قسم کی ابتدائی تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ