بلوچستان: سیلاب متاثرین کو امداد پہنچانے کی آن لائن سروس

’ہم مسائل کو سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ سب دنیا کے سامنے لائیں کہ لسبیلہ کی کیا خوبصورتی ہے اور اس کے ساتھ مسائل کیا ہیں۔‘

خیر محمد مری نامی ایک شخص کی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں وہ فون پر خود سے رابطہ کرنے والے شخص کو بتاتے ہیں کہ وہ انتہائی برے حالات میں ہیں اور بچے بڑے سب بھوک سے بدحال ہیں۔ (سکرین گریب) 

لسبیلہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے بعد ہنگامی صورت حال میں کئی لوگ ایسے ہیں جن تک کوئی حکومتی ادارہ نہیں پہنچ پا رہا۔

دوردراز علاقوں میں پھنسے ایسے لوگوں کی مدد کے لیے ایک پرائیویٹ ادارہ ایسا ہے جو ان کا ڈیٹا جمع کرتا ہے اور متعلقہ حکومتی اداروں تک پہنچاتا ہے۔ اس ادارے کا نام وانگ ( ویلفیئر ایسوسی ایشن فارنیوجنریشن) ہے۔

خیر محمد مری نامی ایک شخص کی سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں وہ فون پر خود سے رابطہ کرنے والے شخص کو بتاتے ہیں کہ وہ انتہائی برے حالات میں ہیں اور بچے بڑے سب بھوک سے بدحال ہیں۔ 

انہوں نے بتایا کہ وہ سیلابی پانی میں پھنس چکے ہیں۔ ابھی تک ان کے پاس کوئی امداد نہیں پہنچی ہے۔ 

عموماً سرکاری حکام ہیلی کاپٹر کے ذریعے لوگوں تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں تاہم بعض اوقات موسم کی خرابی اور تعداد میں کمی کے باعث ہر ایک متاثرہ فرد تک رسائی میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ 

 بلوچستان کے بہت سے دیگر اضلاع کی طرح لسبیلہ بھی سیلاب کے کاری وار سے بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔ لوگ راستے بند ہونے اور پانی جمع ہونے کے باعث پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی مسئلوں کو حل کرنے کے لیے سماجی کام کرنے والے نوجوان جدت کا سہارا لے کر متاثرین تک رسائی کوآسان بنارہے ہیں۔ 

وانگ ( ویلفیئر ایسوسی ایشن فارنیوجنریشن) کے خلیل رونجھا کہتے ہیں کہ اس سے قبل کرونا اور دوسری قدرتی آفات میں بھی یہی مسئلہ تھا کہ متاثرین تک کیسے پہنچا جائے۔ اس وقت صوبائی حکومت کے اداروں کے حکام بھی ہم سے اعداد وشمار طلب کرتے تھے۔ 

 خلیل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جب حالیہ بارشیں ہوئیں اور سیلابی ریلوں نے سب کچھ تہس نہس کردیا تو ہم نے اس مسئلے کا حل نکالنے کا فیصلہ کیا۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک ویب سائٹ بنائی۔ جس میں ایک طریقہ کار وضع کیا گیا جس کے تحت سوشل میڈیا پر ایک لنک موجود ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ تک رسائی ہوتی ہے ان سے اس ویب سائٹ پر کہا جاتا ہے کہ وہ لنک پر موجود ایک فارم کو پر کریں۔ 

فارم میں ان افراد سے نقصان اور لوگوں کی کُل تعداد کا پوچھا جاتا ہے، جبکہ اس کے ساتھ لوکیشن کا آپشن بھی ہے۔ جب وہ فارم پر کرکے واپس بھیجتے ہیں تو اس طرح ہمارے پاس معلومات آجاتی ہیں۔ 

فارم میں فرد کا نام، شناختی کارڈ نمبر، گاؤں کا نام اور امداد کی فراہمی سمیت راستے کے حوالے سے بھی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ 

اس طریقہ کار کے تحت ہمارے پاس گوگل میپس کی طرح نقشہ بن جاتا ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ لوگ کن علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔  

انہوں نے بتایا: ’ہم نے یہ سلسلہ چار دن سے شروع کر رکھا ہے جس کے باعث اب تک ہمارے پاس 1500 لوگوں کا ڈیٹا جمع ہوچکا ہے۔ وہ ڈیٹا ہم نے صوبائی حکومت کے اداروں کو بھی دے دیا ہے۔‘ 

وانگ تنظیم میں خلیل رونجھا ڈائریکٹر پروگرامز ہیں اور یہ تنظیم ضلع لسبیلہ میں امن، صحت اور تعلیم کے حوالے سے کام کررہی ہے۔ 

خلیل نے بتایا کہ  اس وقت ضلع لسبیلہ میں صورت حال انتہائی خراب ہے۔ پانچ چھ دن سے بارشیں ہورہی ہیں۔ آرسی ڈی شاہراہ اور گوادر جانے والی شاہراہ کئی جگہوں سے ٹوٹ چکی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے، ایدھی رضاکاربھی کام کررہے ہیں لیکن دور دراز علاقوں میں پھنسے لوگوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث ان کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے جو اس وقت بھی پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ بعض جگہوں پر نیٹ ورک کام نہیں کررہا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خلیل نے بتایا کہ کچھ علاقوں میں ہیضے کی وبا پھیلنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ یہاں بڑے پیمانے پر این جی اوز بھی نہیں ہیں جو اس طرح کی صورت حال میں امدادی کام کریں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ اوتھل میں صورت حال خراب ہے۔ وہاں کے لوگ دونوں طرف سے پھنسے ہیں، نہ اندر جاسکتے ہیں، نہ دوسری طرف جاسکتے ہیں۔ امدادی کارروائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، اس کے علاوہ ان کے علاقے کے عوامی نمائندے بھی غائب ہیں۔

خلیل کا کہنا تھا کہ ہم مسائل کو سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہ سب دنیا کے سامنے لائیں کہ لسبیلہ کی کیا خوبصورتی ہے اور اس کے ساتھ مسائل کیا ہیں۔ 

خلیل نے بتایا کہ جب یہاں سیلابی ریلوں نے سڑک کو نقصان پہنچایا تو انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے آگاہی دی کہ کن جگہوں پر لوگ پھنسے ہیں۔ اس کے ساتھ جن علاقوں میں نیٹ ورک کام نہیں کر رہا تھا اس کے حوالے سے بھی بتایا۔ جو لوگ سفر کررہے تھےان کو صورت حال کے بارے میں آگاہی ملی۔ 

انہوں نے بتایا: ’ہم آرمی سمیت دیگر امدادی کام کرنے والے اداروں کو اپنا ڈیٹا دیتے ہیں۔ جس کے ذریعے ان کو یہ علم ہوجاتا ہےکہ کس گاؤں میں لوگ پھنسے ہیں جس کے بعد وہ وہاں پر راشن گرا دیتے ہیں۔‘ 

خلیل سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ڈیٹا جمع کرنا ایک حساس مسئلہ ہے، کیا ان کو اجازت ہے تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس سے قبل کرونا کے دوران بھی ایسا کیا ہے۔ ’ہم حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ ہم کوئی حساس چیزیں جمع نہیں کرتے یہ بنیادی معلومات ہوتی ہیں۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ حکومت کےساتھ رجسٹرڈ ہے۔ وہ ان لوگوں سے ڈیٹا جمع کررہے ہیں جو ان کو ڈیٹا دینا چاہتے ہیں، اس لیے وہ کوئی غیر قانونی کام نہیں کررہے ہیں۔ 

’ہم کسی سے حساس ڈیٹا جمع نہیں کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کی بہتری اور ان کو ریلیف دینا ہے۔ اس سے حکومت کا کام آسان ہوجاتا ہے جس کے باعث وہ فوری طور پر لوگوں کی مدد کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔‘ 

اس وقت ضلع لسبیلہ سیلاب سے بری طرح متاثر ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو بھی اسلام آباد میں تھے۔ 28 جولائی کو تمام مصروفیات ترک کے کوئٹہ پہنچے اور پھر انہوں نے لسبیلہ میں سیلاب کی صورت حال کا فضائی جائزہ لیا۔ 

دوسری جانب محکمہ تعلقات عامہ کی جانب سے حکومت بلوچستان کی ترجمان فرح عظیم کا بیان جاری کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ  سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے فنڈ ریزنگ پروگرام کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 

فرح عظیم کہتی ہیں کہ وزیراعلیٰ بلوچستان، صوبائی وزرا بشمول صوبائی ترجمان نے اس فنڈ ریزنگ پروگرام میں اپنی آدھی تنخواہیں دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ 

فرح عظیم شاہ کے مطابق فنڈ ریزنگ پروگرام میں ملکی اور غیر ملکی اداروں اور شخصیات سے امداد کی اپیل کی جائے گی اور صوبائی حکومت سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی تک چین سے نہیں بیٹھے گی۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا