بھارت نے جمعرات کو روسی ساختہ طیارے کے کریش ہونے اور اس میں سوار دو پائلٹوں کی ہلاکت کے بعد بالآخر اپنے آخری مگ 21 سکواڈرن کو 2025 تک ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعرات کو بھارتی فضائیہ کا ایک مگ 21 بائیسن طیارہ مغربی ریاست راجستھان کے بارمیر قصبے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
یہ ان طیاروں کو گذشتہ 20 مہینوں میں پیش آنے والا چھٹا حادثہ ہے۔
اس حادثے میں دو پائلٹ ونگ کمانڈر ایم رانا اور فلائٹ لیفٹیننٹ ادویتیا بال ہلاک ہو گئے تھے، جس نے ایک بار پھر اس پرانے سکواڈرن کی موجودگی پر نئی بحث چھیڑ دی۔
بھارت کے انگریزی روزنامے دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ 20 مہینوں میں مگ 21 بائیسن کے چھ حادثوں میں پانچ پائلٹ ہلاک ہو چکے ہیں۔ 2021 میں ان طیاروں کو پانچ اور 2022 میں ایک حادثہ پیش آ چکا ہے۔
جمعے کو بھارتی فضائیہ کے ذرائع نے بتایا کہ ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے جس میں فورس میں شامل بقیہ چار مگ 21 فائٹر سکواڈرنز کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لیے تین سال کی ٹائم لائن دی گئی ہے اور پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق ان میں سے ایک ستمبر میں سروس سے ریٹائر ہونے والا ہے۔
اگلے پانچ سالوں میں مگ 29 لڑاکا طیاروں کے تین سکواڈرنز کو مرحلہ وار ختم کرنے کے منصوبے بھی بنائے جا رہے ہیں۔
تاہم اس بات کی کوئی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ آیا سوویت دور کے ان جیٹ طیاروں کو مرحلہ وار ختم کرنے کے منصوبے کا تعلق جمعرات کے پیش آنے والے حادثے سے ہے یا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بجائے بھارتی فضائیہ نے کہا ہے کہ پرانے سکواڈرنز کو مرحلہ وار ختم کرنا بھارتی فوج کو جدید بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
اس وقت بھارتی فضائیہ کے پاس تقریباً 70 مگ 21 اور 50 مگ 29 طیارے آپریشنل سروس میں موجود ہیں۔
مگ کے پہلے سکواڈرن کو 1963 میں بھارتی فضائیہ میں شامل کیا گیا تھا۔
اس کے بعد کے سالوں میں بھارت نے ان طیاروں کے 700 سے زیادہ ویرینٹس خریدے۔
اگرچہ یہ طیارہ بھارتی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں کا ایک لازمی حصہ رہا ہے، تاہم حادثات کی زیادہ شرح کی وجہ سے مگ 21 طیاروں کو ’فلائنگ کوفن‘ (اڑتے تابوت) کا لقب بھی ملا ہے۔
بھارتی وزارت دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق ان طیاروں کے حادثات میں 170 پائلٹ ہلاک ہو چکے ہیں۔
2010 سے اب تک 20 سے زیادہ طیارے گر کر تباہ ہوئے جب کہ 2003 سے 2013 کے درمیان گرنے والے طیاروں کی تعداد 38 تھی۔
اس طیارے کے خراب سیفٹی ریکارڈ کے حوالے سے بھی کئی انکوائریاں کی گئی ہیں۔
© The Independent