فیصل آباد: 92 سال پرانے عرب کھجوروں کے باغ کو خطرہ

سعید احسان فروٹ فارم کے مالک میاں عرفان الحق کے والدین نے 1930 میں کھجوروں اور دیگر پھلوں کا باغ لگایا تھا، تاہم اب ان کے آس پاس زرعی زمینیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔

فیصل آباد میں سعید احسان فروٹ فارم تقریباً ایک صدی سے ملک بھر میں عربی بصرہ اور حلاوی سمیت کھجور کی 15 سے زائد افسام فراہم کر رہا ہے۔ تاہم زرعی زمینوں کی گھروں اور پلازوں میں تبدیلی اور پانی کی کمی اس کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ 

’کھجوروں والا باغ‘ کے نام سے مشہور یہ باغ ملت ٹاؤن کے قیرب 40 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی کھجوریں اتنی میٹھی ہیں کہ زیادہ تعداد میں کچی بھی کھا لی جائیں تو گلہ خراب ہوتا ہے نہ ہی منہ خشک ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ کھجوریں فیصل آباد ہی نہیں بلکہ دیگرعلاقوں میں بھی بہت پسند کی جاتی ہیں۔

باغ کے مالک میاں عرفان الحق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ان کا موروثی باغ ہے جو ان کے والدین نے 1930 میں لگایا تھا۔

60 سالہ میاں عرفان الحق کے مطابق وہ 40 سال سے اس باغ کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس باغ میں کھجوروں کے دو سے تین ہزار پودے ہیں اور ان کے علاوہ یہاں آم، لیچی اور امردو کے درخت بھی موجود ہیں، تاہم پانی کی کمی کے باعث ان کا زیادہ تر انحصار امرود اور کھجور کی پیداوار پر ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عرفان الحق کے مطابق: ’ہم نے وہ بصرہ کھجور لگائی ہے جو حکومت نے 1968 میں درآمد کی تھی۔ اس وقت ہم نے اسے زیادہ وسیع کیا تھا اور وہی پودے ہم نے لگائے جو کہ ڈوکا کی شکل میں میٹھے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ کھجور کی دو بنیادی اقسام ہیں ایک کو پکی کھجور کہا جاتا ہے اور دوسری کو کچی کھجور کہتے ہیں۔

ان کے بقول: ’سب سے اچھی قسم حلاوی ہے جو آپ کچی بھی استعمال کر سکتے ہیں، باقی چھوہارا یا دیگر اقسام پکانے والی ہوتی ہیں۔‘

عرفان الحق کے مطابق اگر کھجور کے موسم میں بارش نہ ہو تو یہ ساری کی ساری استعمال ہو جاتی ہے لیکن اگر بارش وقت سے پہلے آ جائے تو کھجور کی زیادہ پیداوار ضائع ہو جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کھجور 25 جون سے پکنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کی عمر ایک ماہ ہوتی ہے اور 25 جولائی تک یہ ختم ہو جاتی ہے۔ 

عرفان الحق کے بقول پہلے یہ باغ 75 ایکٹر رقبے پر تھا مگر وراثت میں تقسیم کے بعد اب 40 ایکڑ باغ رہ گیا ہے اور باقی زمین پر رہائشی کالونیاں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ صبح کے وقت روزانہ اس باغ میں سینکڑوں لوگ سیر کے لیے آتے ہیں اور دھوپ نکلنے تک رش لگا رہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگ انہیں بھی کہتے ہیں کہ اس جگہ کو فروخت کردو یا پھر یہاں کوئی  رہائشی کالونی بنا لو لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے۔

انہوں نے بتایا: ’لوگ تو بہت زیادہ رابطہ کرتے ہیں بہت سبز باغ دکھاتے ہیں لیکن ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ عرصہ ہم اسے باغ کی شکل میں قائم رکھ سکیں ۔ اس کے بعد دیکھیں گے جب بالکل مجبور ہو جائیں گے تب ہم اس کو کسی اور جگہ منتقل کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو بھی اس سلسلے میں سخت پالیسی اختیار کرنی چاہیے کہ جو زرعی زمین ہے اس کو مکمل طور پر زرعی رہنا چاہیے۔

’ہماری زرخیز زمینیں ہیں ساری آبادی میں تبدیل ہو جائیں گی تو پیچھے کچھ نہیں بچے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان