بلوچستان کے ضلع کیچ میں شدید گرمی میں کھجور کی ایک ایسی فصل پیدا ہوتی ہے جو ملکی اور عالمی سطح پر بہترین تحفہ سمجھی جاتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت تربت کیچ میں 24 ہزار 200 ہیکٹر رقبے پر ڈیڑھ لاکھ ٹن کے قریب کھجور کی پیداوار ہے۔
اگر پاکستان میں کھجور کی پیداوار کی بات کی جائے تو سب سے پہلے مکران ڈویژن کے ضلع پنجگور اور ضلع کیچ تربت کا نام سر فہرست ہے کیونکہ یہاں سو سے زائد اقسام کی کھجوریں کاشت کی جاتی ہے۔
اس علاقے میں مختلف اقسام کی کھجور کاشت کی جاتی ہیں لیکن یہاں کے ایکسپوٹرز کا شکوہ ہے کہ کسان کو ان کی محنت کا صلہ نہیں ملتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقبول عالم نوری درفشان ڈیٹ فارم کیچ کے سی ای او ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسان کو اس کی پیداوار اور محنت کے مطابق معاوضہ نہیں ملتا مثلاً ہماری کھجور کی قسم بیگم جنگی جس کو ہم انڈسٹریل کہتے ہیں، اس کے ایک ٹن کے 25 ہزار روپے ملتے ہیں۔ یہ عالمی مارکیٹ میں آٹھ سو ڈالرز میں بکتی ہے۔ ہمارے کسان بیچارے پورا سال محنت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’کھجور کی پیداوار کے لیے ایک ایک درخت پر چڑھ کر پولن دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انگریزی میں اس کو سپیتھ اور بلوچی میں گش کہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پولن ملنے پر درخت پھل دیتا ہے، تو اس لحاظ سے ہر درخت پر چڑھ کر پولن دینا کسان کے لیے بہت مشکل عمل ہے، اس پر بہت وسائل صرف ہوتے ہیں، خرچہ آتا ہے، درختوں کو وقت چاہیے ہوتا ہے، پانی دینا پڑتا ہے، فصل تیار ہونے پر بیگم جنگی کے درخت پر کم از کم چار پانچ مرتبہ چڑھ کر کھجور اتارنی ہوتی ہے۔ پھر کھجور کو سورج میں سکھا کر پیکنگ کے بعد مارکیٹ بھیجتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’اس انتھک محنت پر کسان کو فی من ہزار بارہ سو یا زیادہ سے زیادہ پندرہ سو روپے مل جاتے ہیں۔ یہ کسان کے لیے کچھ بھی نہیں۔‘