یوم آزادی: باجوں پر پابندی کی درخواست مسترد

پاکستان میں چند سالوں سے 14 اگست کو باجے بجا کر خوشی کے اظہار کا طریقہ رائج ہو گیا ہے۔ ان باجوں سے عوام کافی پریشان ہیں اور وہ اس کا اظہار سوشل میڈیا پر بھی کر رہے ہیں۔

یہ تصویر 10 اگست 2022 کو لی گئی ہے اور اس میں پاکستان کے 75ویں یوم آزادی سے قبل سڑک کنارے قومی پرچم اور باجے فروخت کرنے والے کو دیکھا جا سکتا ہے (تصویر: اے ایف پی فائل)

آپ میں سے کس کس کو 14 اگست، 2022 کو واٹس ایپ پر جشن آزادی کا وہ میسج آیا جس میں ایک سیکنڈ کی کان شل کر دینے والی باجے کی آواز بھی تھی؟ آپ میں سے بہت سوں نے اس پیغام کو برا بھلا کہا ہو گا۔

پاکستان میں چند سالوں سے 14 اگست کو باجے بجا کر خوشی کے اظہار کا طریقہ رائج ہو گیا ہے۔ ان باجوں سے عوام کافی پریشان ہیں اور وہ اس کا اظہار سوشل میڈیا پر بھی کر رہے ہیں۔

ان باجوں پر پابندی کے لیے ایک شہری میاں منیب نے پیر کو لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی۔ تاہم جسٹس شاہد وحید نے اسے یہ کہہ کر ناقابل سماعت قرار دے دیا گیا کہ 14 اگست گزر چکی ہے اس لیے اس پٹیشن کا اب جواز نہیں بنتا۔

میاں منیب کے وکیل ایڈووکیٹ میاں آصف محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ان کو سمجھنا چاہیے تھا کہ ہر سال 14 اگست کو یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بھی ایک آرڈر پاس ہوا تھا کہ  مختلف رنگوں سے بنے جھنڈے منع ہیں کیوں کہ ہمارے جھنڈے کا رنگ ہرا ہے اور وہ ہرا ہی رہنا چاہیے۔

’ہم نے اس معاملے کو بھی پٹیشن میں شامل کیا کیوں کہ وہ حکم تو جاری ہوگیا مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا اس لیے اداروں کو پابند کیا جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انسانی کان 60 ڈی بی تک آواز سن سکتا ہے جو نارمل ہے اگر ڈی بی 100 تک چلی جائے تو وہ شور کہلاتا ہے۔

’سٹیڈیمز میں یا لاؤڈ سپیکر سے آنے والی آواز کے ڈی بی 120 تک بھی چلے جاتے ہیں مگر ان باجوں کی آواز کے یونٹس 120 سے بھی اوپر ہوتے ہیں جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اتنا شور بلڈ پریشر، دل کی دھڑکن بڑھ جانا اور دماغی دباؤ بڑھا سکتا ہے۔

’ہم نے استدعا کی تھی ان باجوں کو منع کر دیا جائے اور پولیس باجا بجانے والوں اور ہلڑ بازی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔‘

فیس بک صارف رچرڈ رحمت نے اپنے پیج پر ایک پوسٹ لگائی جس میں انہوں نے ایک ویڈیو پوسٹ کی، جس میں بچوں کا ایک گروہ باجے بجا رہا ہے۔

رچرڈ نے اپنی پوسٹ میں لکھا: ’میرے خیال میں یہ ان کی غلطی نہیں ہے لیکن کسی کو انہیں بتانا ہوگا کہ یہ جشن نہیں۔ بچے ربڑ بینڈ کی طرح ہوتے ہیں اور ہم والدین انہیں موڑنے کا راستہ منتخب کرتے ہیں۔‘

رچرڈ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ہمیشہ سے ہی آزادی کا دن منانے کے اس طریقے پر اعتراض ہے۔

’ہم لوگ گولیاں چلا کر اس دن کو منانے کا آغاز کرتے ہیں۔ جو خطرناک ہو سکتا ہے اس سے کسی کو نقصان ہو سکتا ہے۔

’یہی کلچر ہم نے اپنے بچوں مں منتقل کر دیا انہیں شور پسند ہے وہ شور مچانا چاہتے ہیں۔‘

بشریٰ اقبال حسین ایک ریڈیو پریزینٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ’محفوظ بچپن‘ کے نام سے بچوں کے حقوق کے لیے ایک پیج بھی چلاتی ہیں۔

انہوں نے 14 اگست پر اپنے گروپ میں  ایک پوسٹ شیئر کی جس میں انہوں نے سوال کیا: ’کس کس نے اپنے بچوں کو باجا لے کر نہیں دیا۔ ان ماؤں سے کہنا ہے کہ شاباش میری ہم وطنوں۔ پاکستان کو آپ جیسی باشعور ماؤں کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بچوں کو باجے دینا یا جھنڈے لگانا آزادی منانا نہیں۔

’آپ بچوں سے بات کریں اور انہیں بتائیں کہ آزادی ہوتی کیا ہے؟ میں 13 اور 14 کی درمیانی شب ایک ہسپتال کے باہر سے گزر رہی تھی اور وہ باجے میرے کان پھاڑ رہے تھے تو میں یہ سوچ رہی تھی کہ کیا ان باجوں کا شور ہسپتال تک بھی پہنچ رہا ہوگا؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان