انڈیا میں رشدی حملے پر خاموشی کیوں؟

جب دنیا بھر سے سلمان رشدی پر حملے کی مذمت ہو رہی ہے، توقع کے برعکس انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی نے اس معاملے پر چپ کا روزہ رکھ لیا ہے۔

اطلاعات کےمطابق نریندر مودی نے بی جی پی کے اہلکاروں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں کوئی منفی بات نہ کریں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ پہلا موقع ہے جب انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے سلمان رشدی پر ہونے والے حالیہ قاتلانہ حملے پر خاموشی اختیار کی ہے۔ یہ 1988 سے مختلف ردعمل ہے جب کانگریس نے ان کی متنازع کتاب پر ہندوستان میں پابندی لگائی تھی۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

 

1988 میں جہاں ایران نے سلمان رشدی کی کتاب پر توہین رسالت کی پاداش میں فتویٰ جاری کر کے مسلمانوں کو انہیں قتل کرنے کا حکم دیا تھا، وہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے شدید ردعمل کے نتیجے میں کانگریس کے وزیراعظم راجیو گاندھی نے کتاب پر پابندی عائد کر دی تھی۔

اس وقت اپوزیشن پارٹی بی جے پی نے پابندی کی شدید مخالفت کرکے کانگریس پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے اظہار تقریر و تحریر پر وار کر کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے تاکہ انتخابات میں مسلم ووٹ حاصل کر سکیں۔

چند روز سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب دنیا بھر سے سلمان رشدی پر نیویارک میں ایک تقریب کے دوران ہونے والے حملے پر مذمتی بیانات جاری ہو رہے ہیں تو توقع کے برعکس انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے اس پر کچھ کہنے سے اجتناب کیا ہے۔

حتیٰ کہ اپوزیشن پارٹی کانگریس کے سرکردہ رہنماؤں نے بھی بڑے محتاط طریقے سے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے، جس کے بارے میں اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ انڈیا کی جمہوری سوچ سکڑ چکی ہے۔

بی جے پی کے بعض حلقوں میں یہ افواہیں گرم تھیں کہ پارٹی ہائی کمان نے سابق ترجمان نوپور شرما کے توہین مذہب کے اس بیان کے بعد جس میں انڈیا کی حکومت کو مسلم ملکوں کے حکمرانوں کے سامنے جواب دہ ہونا پڑا ہے، تمام کارکنوں اور ترجمانوں کو ممانعت کی ہے کہ وہ ایسا کوئی بیان میڈیا پر نہ دیں جس سے مسلم دنیا سے انڈیا کے تعلقات کو زک پہنچے۔

بقول ایک بی جے پی کے کارکن ’وزیراعظم مودی نے بڑی مشکل سے انڈیا کو عرب دنیا سے کافی قریب کیا ہے جس سے ان ملکوں میں نہ صرف لاکھوں ہندو ملازمت پر رکھے جا رہے ہیں بلکہ پاکستان کی اہمیت اور پوزیشن کمزور ہو گئی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے خلاف بیانات دینے سے مسلم دنیا میں ناراضگی پیدا ہوتی ہے۔ نوپور شرما کے بیان اور عرب دنیا کے ردعمل کے بعد بی جے پی پر جیسے سکتہ طاری ہوا ہے۔ اب تو اقلیت مخالف اندرونی سیاست پر بھی بی جے پی نے خاموشی اختیار کی ہے اور پہلے کی طرح میڈیا پر اس پارٹی کے ترجمان کم ہی نظر آتے رہے ہیں۔‘

سیاسی خاموشی کے برعکس انڈین میڈیا نے سلمان رشدی پر ہونے والے حالیہ حملے کو کئی روز تک اپنی سرخیوں کی زینت بنایا اور اس کو مذہب اسلام کے ساتھ ملا کر کافی ہاہاکار مچائی لیکن مباحثوں میں بی جے پی کے سرکردہ ترجمانوں کی کمی کو ان کے کروڑوں ووٹروں نے کافی محسوس کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جو رہنما عام ہندو کی ہلاکت پر دن میں کئی ٹویٹ کرتے دیکھے جا رہے تھے، جن کو بعد میں بی جے پی کا آئی ٹی سیل خوب وائرل کرواتا رہا ہے، وہ سلمان رشدی پر اتنے خاموش رہے جیسے ان کا انڈیا سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ حالانکہ ماضی میں ان کی لبرل سوچ، شہرت اور مقبولیت کو ہمیشہ انڈیا کے کھاتے میں ڈالا جاتا رہا ہے۔

بی جے پی کے علاوہ دوسری علاقائی جماعتوں نے بھی پر اسرار طور پر خاموشی اختیار کی۔ صرف چند مصنفوں، دانشوروں اور ادیبوں نے اس حملے کی مذمت کی۔

احمدآباد کے ایک صحافی رئیس پٹیل کہتے ہیں کہ ’بی جے پی نے اندرون ملک مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا کام اب اپنی حامی جماعتوں کو سونپ دیا ہے جن میں بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد یا دھرم سنسد وغیرہ شامل ہیں تاکہ کسی بھی وقت ان کارروائیوں سے اپنا دامن چھڑ اسکے۔ قومی سطح پر وزرا کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی مسئلے پر بات کرنے سے پہلے پارٹی سربراہ سے رجوع کریں۔ مودی تو سات برسوں میں کبھی میڈیا کے سامنے کسی بھی مسئلے پر جواب دینے کے لیے نہیں آئے لیکن نوپور شرما کے بیان کے بعد انڈیا کی بیرونی دنیا میں جو سبکی ہوئی ہے اس کا مودی نے شدید نوٹس لیا ہے۔ میرے خیال میں انہوں نے پارٹی کارکنوں پر خاصی بندشیں عائد کی ہیں جس کا ثبوت سلمان رشدی پر پارٹی کی حالیہ خاموشی سے ملا۔‘

سلمان رشدی حکمران جماعت بی جے پی کے خاصے ناقد مانے جاتے ہیں جنہوں نے کئی بار ہندوتوا کی اقلیت مخالف پالیسیوں کو نشانے پر رکھا اور اسے انڈیا کی سیکیولر جمہوریت کے خاتمے سے تعبیر کیا ہے۔ یہ خاص وجہ ہے کہ ہندوتوا جماعتوں نے حالیہ حملے پر خاموشی اختیار کی اور اپنے کارکنوں کو بھی اس کو اچھالنے سے روک دیا گیا۔

بی جے پی کی خاموشی اور بندش کے باوجود ہندوتوا کے بعض کارکنوں نے سوشل میڈیا پر سلمان رشدی کے حملے پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ حملہ آور ہادی مطر پر تنقید کرنے کے بجائے اسلام کو ’دہشت گردی‘ سے جوڑ کر دل کی بھڑاس نکالی۔

انڈیا میں تنقید کرنے والوں میں آج زیادہ تر مسلمان ہی تھے جو ہندوتوا کے خوف سے اتنے بے بس ہو گئے ہیں کہ ملک کے شہری ہونے کے باوجود ہاتھوں میں ترنگا لے کر ایک طرف انڈین ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں تو دوسری جانب رشدی کے حملہ آور کو ’دہشت گرد‘ قرار دے کر ہندوتوا جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم عوامی حلقوں میں یہ سوچ گہری ہے کہ سیکیولر اپوزیشن جماعتیں بھی بی جے پی کا سا طرز عمل اختیار کرنے لگی ہیں۔ وہ چاہے مندر میں حاضری دے کر مذہب کا پرچار کرنا ہو یا اپنی شناخت کی تشہیر کر کے ہندو ووٹروں کو اپنی جانب مائل کرنا ہو۔ اقلیتیں اپنی شناخت بچانے کی اس جنگ میں عالمی برادری کی جانب دیکھنے لگی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ