پولیس افسران اور مجسٹریٹ کو دھمکی: قانون کیا کہتا ہے؟

کیا کوئی قانون موجود ہے جس سے کسی کو پابند کیا جا سکے کہ عوامی مقامات پر قومی مفاد کے تحت عدلیہ اور سکیورٹی اداروں کو دھمکایا نہ جائے، یا انہیں روکنا آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 20 اگست 2022 کو اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں ایک جلسے سے خطاب کر رہے ہیں (تصویر: سکرین گریب پی ٹی آئی یوٹیوب)

ماہرین آئین و قانون کا کہنا ہے کہ کسی بھی سرکاری عہدیدار کو اس کے کام کی بنیاد پر دھمکی دینا یا اس کے خلاف مجمعے میں کارروائی کرنے کا اعلان کرنا خلاف قانون ہے اور جن لوگوں کے گذشتہ شب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جلسے میں نام پکارے گئے ان کی زندگیاں اب خطرے میں ہیں۔ 

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ہفتے کی شب ایف نائن پارک اسلام آباد میں دوران تقریر ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری، آئی جی اور ڈی آئی جی اسلام آباد کے خلاف کارروائی کرنے کا بیان دیا تھا جس پر سوشل میڈیا میں ان پر تنقید بھی کی گئی تھی اور اس بیان کو دھمکی قرار دے کر ضلعی عدالت کے وکیل نے اس توہین پر تھانے میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست بھی دائر کر دی ہے۔ 

کیا کوئی بھی عدالتی فیصلہ پسند نہ آنے پر کوئی فریق مجمعے سے خطاب میں عدلیہ اور پولیس حکام کو دھمکا سکتا ہے؟ 

پاکستانی سیاست میں یہ نیا نہیں ہے ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جس میں مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے حکومتی عہدے داروں کو سیاسی عتاب اور الزام تراشی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ماضی میں یہ مثال بھی موجود ہے جب 2014 کے دھرنے میں ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو نے ریاستی رٹ بحال رکھتے ہوئے حکومتی احکامات پر عمل کیا تو ایک جماعت کے کارکنان نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا پہلے کبھی ان معاملات پر قانون حرکت میں آیا؟

کیا کوئی قانون موجود ہے جس سے کسی کو پابند کیا جا سکے کہ عوامی مقامات پر قومی مفاد کے تحت عدلیہ اور سکیورٹی اداروں کو دھمکایا نہ جائے، یا انہیں روکنا آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے؟

ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف ماہرین قانون سے گفتگو کی ہے۔

ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کسی شخص کو عدالتی فیصلے سے اختلاف ہے یا پولیس سے شکایت ہے تو اپیل کا فورم موجود ہے جلسے میں اعلان کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘

انہوں نے کہا دھمکانا آزادی اظہار رائے میں نہیں آتا بلکہ یہ ایک جرم ہے۔ اب پولیس نے دیکھنا ہے کہ کون سی دفعات عائد ہوتی ہیں۔

سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی سرکاری ملازم یا جوڈیشل افسر کو اس کے کام کی نوعیت پر دھمکایا نہیں جا سکتا اور اس حوالے سے سپریم کورٹ کا ایک آرڈر بھی موجود ہے جس میں خاتون جج یاسمین کے فیصلے پر ہائی کورٹ نے کچھ ریمارکس دیے تھے جس پہ خاتون جج نے ان ریمارکس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا

’سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں واضح کیا تھا کہ نچلی عدالتوں میں جج کے فیصلے میں اگر سقم موجود ہے تو اعلیٰ عدالتیں اس فیصلے کو اپیل میں سن کر معطل کر سکتی ہیں لیکن فیصہ دینے کی بنیاد پر جوڈیشل افسر پر ریمارکس نہیں دیے جا سکتے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ’بہت سنجیدہ معاملہ ہے اگر سرکاری یا جوڈیشل افسران کو ان کے فرائض کی ادائیگی میں دھمکایا جائے قانون میں اس کی اجازت نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہ خاور نے کہا کہ دھمکانے کی دفعہ تعزیرات پاکستان میں موجود ہے۔ دفعہ 506 اس کا احاطہ کرتی ہے جس کی سزا دو سال قید یا جرمانہ یا دونوں ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ 351 سی بھی ہو سکتی ہے جس کی سزا تین ماہ قید یا جرمانہ ہے جبکہ دفعہ 353 جس کی سزا دو سال قید یا جرمامہ ہے وہ ان جرائم کا احاطہ کرتی ہیں۔

سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل احسن بھون نے کہا کہ ’ایک شخص جس کے پیروکار موجود ہیں اگر وہ مجمعے میں سرکاری افسران اور مجسٹریٹ کا نام لے کر کہے گا کہ ’ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے‘ تو یہ دھمکی ہے اور اس پر دہشت گردی کی دفعات بھی لاگو ہوتی ہیں۔ کیوں کہ جن کے نام پکارے گئے ہیں اُن کی زندگی اب خطرے میں ہے مجمعے میں کوئی بھی اُن پر حملہ کر سکتا ہے۔‘

احسن بھون نے کہا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کو اس معاملے پر نوٹس لینا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قانون اس حوالے سے موجود ہیں بس اُن پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے کہا کہ ’یہ بہت آسان سی بات ہے کہ سرکاری ادارے، سکیورٹی ادارے یا عدلیہ کو دھمکانے کی جلسے میں یا کسی بھی اور جگہ قانوناً اجازت نہیں ہوتی۔ جو بھی ایسا کرے چاہے وہ عام آدمی ہو کوئی سیاسی کارکن ہو یا کوئی منصب رکھتا ہو اس کو اس عمل کی اجازت نہیں اور قانون حرکت میں آ سکتا ہے۔ اگر نجی مخفل میں بھی کوئی دھمکی دے تو جرم کا ارتکاب ہو جاتا ہے اور تعزیرات پاکستان دفعہ 506 کا اطلاق ہو جاتا ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان