بونیر: سکھ لڑکی کی مسلمان لڑکے سے شادی پر سکھ برادری کا احتجاج

خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ سکول ٹیچر کی مسلمان لڑکے سے شادی کرنے پر سکھ کمیونٹی احتجاج کر رہی ہے۔

بونیر:سکھ لڑی کی مسلمان لڑکی کے ساتھ شادی کے بعد سکھ برادری کا احتجاج۔ (تصویر: عبدالستار)

خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والی 25 سالہ سکول ٹیچر کی مسلمان لڑکے سے شادی کرنے پر سکھ کمیونٹی احتجاج کر رہی ہے۔

بونیر کے علاقہ پیر بابا پاچا کلے میں سکھ برادری کے خاندان پاکستان آزاد ہونے سے پہلے سے آباد ہیں۔ ایسے ہی خاندان میں سے 25 سالہ سکول ٹیچر دینا کماری ڈیوٹی کے لئے نکلیں اور گھر واپس نہیں آئیں۔

دیر ہونے پرگھر والے پولیس سٹیشن چلے گئے جہاں انہیں بتایا گیا کہ دینا کماری نے ایک اقرارنامہ جمع کروایا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کے ساتھ حزب اللہ نامی لڑکے سے عدالت میں شادی کی ہے۔

اس خبر کے بعد سکھ برادری سڑکوں پر نکل آئی اور احتجاج شروع کر دیا۔

اس حوالے سے بونیر میں سکھ برادری کے سربراہ سردار سنت سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہماری ایک بچی جو کہ ہفتے کے روز سرکاری گرلز ہائیر سیکنڈری سکول میں  ٹیچر ہے، وہ ڈیوٹی کے لیے گھر سے نکلی۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ وہ سکول گئی ہے لیکن ایک لڑکے نے اسے کچہری لے جا کر نکاح کر لیا۔

سردار سنت سنگھ کے مطابق: ’جب وہ دن کے دو بجے تک گھر واپس نہیں آئی تو معلوم کرنے پر سکول والوں نے بتایا کہ وہ آج سکول نہیں آئی تھی جس کے بعد پولیس تھانہ پیر بابا چلے گئے۔ لیکن پولیس نے ہماری رپورٹ درج نہیں کی اور ہمیں کہا گیا کہ لڑکی نے ایک اقرارنامہ اور نکاح نامہ بھیج دیا ہے اور اس نے شادی کی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سکھ رہنما نے کہا کہ انتظامیہ اس میں ملوث تھی اور یہ سارا کام انہوں نے ہی کیا تھا۔ ’ڈی پی او بھی آفس میں موجود نہیں تھے اور موقع پر موجود ڈی ایس پی نےکہا کہ آپ صبح آ جائیں ہم آپ کو لڑکی سے ملا دیں گے۔

’جب اتوار کو ہم دس بجے پہنچے تو ہماری بچی دینا کماری کو پولیس کی گاڑی میں لایا گیا لیکن ہم سے ملنے نہیں دیا گیا اور بعد میں پولیس گاڑی میں اس سے ویڈیو ریکارڈ کر کے دکھائی گئی جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ ہم سے نہیں ملنا چاہتی۔‘

سردار سنت سنگھ نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ ہماری بچی پر تشدد کیا گیا ہے یا برین واش (ذہن سازی) کیا گیا ہے یا بلیک میلنگ کا معاملہ بھی ہوسکتا ہے۔ ’جب تک وہ ہمارے سامنے یہ نہ کہہ دے کہ مجھے آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جانا ہے۔۔۔ہمارے ساتھ ملنے کے بعد اگر وہ ہمارے ساتھ جانے کو تیار نہیں ہوتی اور اس لڑکے ساتھ جانا چاہتی ہے تو پھر ہم منع نہیں کریں گے۔‘

انہوں  نے کہا کہ پولیس کے اس رویے کے خلاف سکھ برادری نے بونیر کے ہیڈکوارٹر ڈگر میں احتجاج شروع کیا ہے جس میں ہمارے ساتھ  بلدیاتی نمائندوں اور دوسرے مذاہب کے لوگ ہندو اور مسلم برادری نے بھی ہمارا ساتھ دیا ہے۔ ’احتجاج کے بعد ضلعی انتظامیہ اور پولیس ڈی پی او کے ساتھ مذاکرات ہوئے ہیں جس میں ہمیں یقین دہائی کرائی گئی ہے کہ بچی کو فی الحال دارالامان بھیج دیا جائے گا جس کے بعد آپ لوگ لڑکی سے مل بھی سکتے ہے۔‘

دینا کماری دختر گرچرن لال ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں جن کی منگنی سکھ کمیونٹی میں اپنے کزن، جو پیشے کے لحاظ سے بی ڈی ایس ڈاکٹر ہیں، کے ساتھ ہوئی تھی۔

سردار سنت سنگھ کے مطابق دینا کماری جس لڑکے کے ساتھ گئی ہے اس کا نام حزب اللہ ہے اور اس کا پڑوسی تھا اور آپس میں آنا جانا بھی تھا اور لڑکا حکیموں کی میڈیسن  کے سپلائی کا کام کرتا ہے۔

بونیر میں سکھ برادری کی آبادی پانچ سو کے قریب ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں پانچ ہزار کے قریب سکھ رہ رہے ہیں۔

سکھ برادری کا اعتراض؟

سردار سنت سنگھ  نے کہا کہ مذہب سے پہلے ہم ایک پشتون ثقافت اور روایات میں زندگی گزار رہے ہے اور پشتون کلچر میں کسی لڑکی کو اس طرح گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں اگر کسی مسلمان لڑکے کے ساتھ مسلمان لڑکی چلی جائے تو ان کے خاندان والے اسے قتل کر دیتے ہیں، تو مذہب کی بات نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے پشتو روایات مذہب سے پہلے آتی ہیں اور بعد میں مذہب کی بات آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ریاست کا خیال رکھتے ہیں، قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور پرامن ماحول کو خراب نہیں کرتے۔ اگر کسی لڑکی کو دو دن تک تحویل میں رکھا جائے تو وہ کچھ بھی بول سکتی ہے۔

سکھ برادری کی لڑکی اس سے پہلے بھی کسی مسلمان لڑکے سے شادی کر چکی ہیں؟

سنت سنگ نے کہا کہ 90 کی دہائی میں واقعات ہوئے تھے لیکن اس کے بعد پرامن ماحول میں ہم زندگی گزار رہے تھے اور کافی عرصہ بعد اس طرح کا واقعہ پیش آیا ہے۔

اس واقعے کی بعد ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے روزنامچہ میں رپورٹ درج کی گئی ہے۔

بونیر کے ضلعی پولیس افسر عبدالرشید نے بتایا کہ سکھ برادری کے لوگ میرے آفس آئے تھے اور تین گھنٹے مذاکرات کیے۔ لڑکی اور لڑکے کو ہم نے برآمد کر لیا ہے، رپورٹ بھی درج کر دی گئی ہے جب کہ وہ لڑکی ایم اے کوالیفائیڈ ہے اور انہوں نے اپنے مرضی کے ساتھ عدالت میں ایک اقرارنامہ جمع کیا ہے اور نکاح کر کے عدالت میں اپنا بیان بھی جمع کرا دیا ہے۔

ڈی پی او نے کہا کہ اب ہم دونوں کو عدالت میں پیش کریں گے جس کے بعد عدالت جو حکم دے گی اس پر ہم عمل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے لڑکی کے والدین کو لڑکی سے ملنے کا موقع بھی دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لڑکی اس وقت دارالامان میں ہے جب کہ لڑکے کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔

مسلمان لڑکے سے شادی کرنے والے دینا کماری نے پولیس کے تحویل میں مقامی میڈیا کو ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ میں نے اپنی مرضی کے ساتھ ایک مسلمان لڑکے کے ساتھ شادی کی ہے اور اس لیے شادی کی کہ میں اسلامیات کا مطالعہ کرتی تھی جس سے متاثر ہو کر میں نے اسلام  قبول کیا۔

انہوں نے کہا کہ اب میرے خاندان والے چاہتے ہے کہ مجھے دارالامان لے جائیں لیکن میں دارالامان نہیں جانا چاہتی۔ ’جہاں پر میرے شوہرجائی گے وہاں پر میں بھی جاؤں گی۔‘

لڑکے کے خاندان والوں سے رابطہ کرنے پر بتایا گیا کہ پشاور میں حکمت کی تربیت لے رہا ہے جب کہ ان کے ساتھ سکھ برداری کی لڑکی نے اسلام قبول کر کے شادی کی ہے جس پر انہیں خوشی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے لڑکی کو دارالامان اور حزب اللہ کو جیل بھیج دیا ہے اور عدالتی کاروائی کے لئے اب کاغذات تیار کر رہے ہیں۔ 

خیبرپختونخوا میں اقلیتی کمیونٹی کے حقوق پر کام کرنے والے سماجی کارکن قمر نسیم نے بتایا کہ اکثر واقعات میں اقلیت سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں اپنی مرضی کے ساتھ مسلمان لڑکوں کے ساتھ شادی کرنے کے لئے تیار ہوتیں ہیں جسے بعد میں اغوا یا زبردستی مذہب تبدیلی کا نام دیا جاتا ہے لیکن جب عدالت میں پیش کی جاتی ہیں تو وہاں وہ اپنی مرضی کی شادی کا بیان دیتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا قانون اور آئین کسی کو بھی اپنی مرضی کی شادی سے منع نہیں کرتا اور ہر شہری کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کے ساتھ شادی کرے۔

قمرنسیم نے کہا کہ اس واقعے پر سکھ برداری کو پریشانی ہو گی لیکن قانون لڑکی کو اپنی مرضی کا حق دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق پر کام کرنے والی اداروں  کو بھی چاہیے کہ اس واقعے کے خلاف ایکشن لے اور لڑکی کا بیان قلمبند کیا جائے تاکہ پتہ چلے کہ آیا اس لڑکی نے اپنی مرضی کے ساتھ مذہب تبدیل کیا ہے اور شادی کی ہے اور اس میں تشدد یا زبردستی شامل نہیں ہے تو پھر ان کا قانونی حق ہے۔ اگر مذہب تبدیلی یا شادی زبردستی کرائی گئی تو ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان