لاہور کی پبلک لائبریریوں کی پرانی پالیسیاں

لائبریریوں میں نئے اور پرانے اخبارات کا ایک نایاب ذخیرہ موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے محفوظ کرنا اشد ضروری ہے لیکن اس کی قیمت محققین سے کیوں لی جا رہی ہے؟

لائبریری انتظامیہ کو پالیسیاں بناتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

یہ تحریر سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

 

مجھے لائبریریاں بہت اچھی لگتی ہیں۔ ایک تو وہاں لوگ کم ہوتے ہیں، دوسرا وہاں کتابیں ہوتی ہیں۔ انسان ایک کونے میں بیٹھ کر بہت کچھ پڑھ سکتا ہے۔ اردگرد موجود لوگوں کو آپ کے دانشور وغیرہ ہونے کا بھی گمان رہتا ہے۔ اس کے علاوہ گھر والے اور دوست احباب بھی آپ کے بیشتر وقت لائبریری میں ہونے سے مرعوب رہتے ہیں۔

کچھ ماہ قبل صحافی صباحت زکریا کی لاہور کی پبلک لائبریریوں کے بارے میں ویڈیو رپورٹ دیکھی تو لائبریری جانے کا منصوبہ بنا لیا۔ میرا لائبریری جانا ضروری بھی تھا۔ میری تحقیق کا کچھ کام باقی تھا۔ میں اس کے لیے انٹرنیٹ پر اخبار کھنگال رہی تھی، اس میں بہت وقت ضائع ہو رہا تھا۔ میں کسی لائبریری میں بیٹھ کر وہی کام کم وقت میں کر سکتی تھی۔

مجھے ایسی لائبریری کی تلاش تھی جہاں میرے مطلوبہ اخبارات کا ریکارڈ موجود ہو۔ لائبریری میرے گھر کے پاس بھی ہو اور وہاں میرا داخلہ بھی آسان ہو۔

میرے گھر کے قریب دو لائبریریاں موجود ہیں۔ قائداعظم لائبریری سی ایس ایس کی تیاری کرنے والے نوجوانوں میں کافی مقبول ہے۔ وہاں داخلہ خالصتاً ممبر شپ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس کے لیے امیدوار کے پاس بی اے کی ڈگری ہونا لازمی ہے۔ میں اس سے تھوڑا آگے ایک پبلک لائبریری چلی گئی۔ وہاں میرے مطلوبہ اخبارات کے ریکارڈ موجود تھے اور میں انہیں بغیر کسی ممبر شپ کے دیکھ سکتی تھی۔

لائبریری کے گارڈز سے لے کر لائبریرین تک کا رویہ کافی دوستانہ تھا۔ لائبریری میں بہت سے لوگ موجود تھے۔ حیرانی کی بات کہ وہ سب پڑھ رہے تھے۔ نہ کہیں ٹولیاں نظر آئیں نہ کہیں کانوں سے لگا ہوا فون نظر آیا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں لائبریری میں اپنے اپنے پسندیدہ حصے میں بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

مجھے اخبارات کے ریکارڈ سے مطلب تھا تو میں اس حصے میں چلی گئی۔ وہاں مجھے اپنے مطلوبہ اخبارات بھی مل گئے اور انہیں دیکھنے کی اجازت بھی مل گئی۔ میں نے ایک اخبار دیکھنا شروع کر دیا۔ کچھ صفحے پلٹنے کے بعد مجھے اپنی تحقیق سے متعلقہ ایک خبر بھی مل گئی۔ میں نے اخبار ڈیسک پر رکھا۔ بیگ سے فون نکالا۔ کیمرہ کھولا۔ اسے خبر کی تصویر کھینچنے کے لیے اخبار کے اوپر کیا تو آواز آئی، ’اخبارات کی تصاویر لینا منع ہے۔‘

میں نے حیرانی سے اپنے دائیں طرف دیکھا۔ وہاں اس حصے کا انچارج بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا، ’کیوں منع ہے؟ میں پھر اپنا مطلوبہ ڈیٹا کیسے اکٹھا کروں گی۔‘

اس نے مجھے بتایا کہ حکومت نے لائبریری کے لیے حال ہی میں ایک سکینر خریدا ہے۔ پالیسی کے مطابق میرے جیسے محققین کو اخبارات سے ڈیٹا لینے کے لیے لائبریری سٹاف اور اس نئے سکینر کی مدد لینی ہو گی۔ ہر سکین کی قیمت 20 روپے ہے۔ یعنی اگر مجھے اخبارات سے ہزار خبریں لینی ہیں تو مجھے ہزار سکینز کے 20 روپے کے حساب سے 20 ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے۔ پھر ان سکینز کو پرنٹ کروانے کی رقم الگ سے ادا کرنی ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مجھے ڈیٹا پرنٹ فارم میں درکار تھا۔ میرا ارادہ اپنے فون سے خبروں کی تصاویر لے کر یا انہیں سکین کر کے ان کے پرنٹس نکلوانا تھا۔ مجھے اپنے کام میں دس لوگوں کو شامل کرنا اچھا نہیں لگتا۔ میں خبروں پر نشان لگا کر دوں، پھر دوسرے سیکشن میں اسے سکین کرنے کی درخواست جمع کرواؤں، پھر لائبریری سٹاف کے وقت پر کام کرنے کی دعا کروں۔ کیا اس سے بہتر نہیں کہ میں اپنے فون کی کیمرا ایپ میں موجود سکینر کی مدد سے پانچ سیکنڈ میں اپنی مطلوبہ خبر کو سکین کر لوں؟

مجھے بتایا گیا کہ لائبریری کی آرکائیو کمیٹی نے کچھ سال پہلے اس پالیسی کو منظور کیا تھا۔ کمیٹی کی طرف سے اس سیکشن میں آنے والے محققین پر نظر رکھنے کے لیے ایک کیمرا بھی لگایا گیا ہے۔

ایک سٹاف ممبر نے بتایا کہ اگر میں اپنا مطلوبہ ڈیٹا نئے اخبارات سے لے رہی ہوں تو مجھے فی سکین پانچ روپے ادا کرنے ہوں گے۔ پرانے اخبارات کے سکین کی قیمت 20 روپے فی سکین ہے۔ انہوں نے چپکے سے کہا کہ میں ان کی شفٹ میں ڈیٹا کی اپنے موبائل فون سے تصاویر لے سکتی ہوں لیکن ہال میں کیمرا لگا ہونے کی وجہ سے مجھے ان میں سے کچھ تصاویر کی رقم جمع کروانی ہو گی۔

شاید لائبریری کی اس پالیسی کا مقصد پرانے اخبارات کی حفاظت ہو۔ یہ حفاظت بہت سے دیگر طریقوں سے بھی کی جا سکتی ہے۔ موبائل کیمرے سے ان کی تصاویر لینے سے انہیں نقصان پہنچنے کا امکان کم ہے۔ ویسے بھی اگر ان اخبارات کی حفاظت اتنی اہم ہوتی تو ان کا ایسا برا حال نہ ہوتا۔

لائبریریوں میں نئے اور پرانے اخبارات کا ایک نایاب ذخیرہ موجود ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسے محفوظ کرنا اشد ضروری ہے لیکن اس کی قیمت محققین سے کیوں لی جا رہی ہے؟ پاکستان میں تحقیقاتی کام نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ایسی پالیسیاں محققین کو کام کرنے سے پہلے ہی نڈھال کر دیتی ہیں۔

حکومت اور لائبریری انتظامیہ کو محققین کے لیے مشکلوں کے بجائے آسانیاں پیدا کرنی چاہیے۔ انہیں اپنی پالیسیاں بناتے ہوئے ان کے مسائل اور جدید دور کے تقاضوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہیے۔  پیسے تو کوئی بھی ادا کر سکتا ہے لیکن جو کام چند منٹوں میں خود کیا جا سکتا ہے اسے چند دنوں میں چار سے پانچ افراد کی مدد سے کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ