خیبر پختونخوا: ’سیلاب زدہ علاقوں میں ہیضہ پھیلنے لگا‘

صوبہ خیبر پختونخوا کے طبی ماہرین کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں پانی سے پیدا ہونے والے امراض نے وبائی شکل اختیار کر لی ہے

چارسدہ: سیلاب متاثرین کے لیے لگائے گئے کیمپ میں مریض ڈاکٹرز سے اپنے معائنہ کروا رہے ہیں۔ (تصویر: ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن خیبر پختونخوا)

صوبہ خیبر پختونخوا کے طبی ماہرین کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں پانی سے پیدا ہونے والے امراض نے وبائی شکل اختیار کر لی ہے اور صرف ضلع نوشہرہ اور چارسدہ کے میڈیکل کیمپس میں مریضوں کی کُل یومیہ تعداد تین ہزار ہو گئی ہے۔

پشاور میں ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سماجی بہبود ونگ کے چیئرمین ڈاکٹر شمس وزیر، جو کہ متاثرہ علاقوں میں ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں اضلاع میں کم وبیش یہی تعداد 29 اگست کو بھی رہی۔

ڈاکٹر شمس وزیر نے بتایا، ’نوشہرہ میں تقریباً 2500 مریضوں میں سے 1400 مریض ایسے تھے جن کو قے، دست یعنی ہیضہ کی شکایت تھی۔ اسی طرح چارسدہ کیمپس میں تقریباً پانچ سو مریض آئے، جن میں تقریباً چار سو مریضوں کو ہیضے کی شکایت تھی جبکہ باقی سکن الرجی، خارش، یا معدے کی تکالیف میں مبتلا تھے۔

’جبکہ 13 مریض ایسے تھے جن کو سانپ نے کاٹا تھا، لیکن یہ زیادہ زہریلے سانپ نہیں تھے اور ہمارے پاس کیمپ میں ہی اس کا اینٹی وینم انجیکشن موجود تھا۔ تاہم ہم نے ہر ایسے مریض کو ہسپتال بھی بھیجا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ جن مریضوں کو ابتدائی طبی امداد کی ضرورت تھی، ان کو کیمپ میں ہی ’لیموں پانی‘ (او آر ایس) وغیرہ دے دیا گیا جبکہ جن مریضوں کی حالت تشویشناک تھی، انہیں ہسپتال بھجوا دیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہیضے نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی شکل اختیار کر لی ہے، کیونکہ سیلاب کی وجہ سے کنوؤں کا پانی آلودہ ہو چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جن گھروں یا عمارتوں کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا وہاں کا پانی بھی آلودہ ہو گیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہر کسی کو بوتل کا پانی دستیاب نہ ہو۔ علاوہ ازیں یہ لوگ کیمپ میں ایک ہی لیٹرین استعمال کر رہے ہیں۔ خوراک بھی گھر کی طرح صاف ان کو دستیاب نہیں۔ لہذا کئی وجوہات ہیں ہیضہ پھیلنے کی۔‘

ڈاکٹر وزیر کے مطابق نوشہرہ میں امان گڑھ، محب بانڈہ، گنڈیری، کینٹ اور دوسرے متاثرہ علاقوں سمیت نو جبکہ چارسدہ میں چھ میڈیکل کیمپس لگائے گئے ہیں جن میں ڈاکٹروں کی تعداد 60 اور دیگر عملے کی تعداد 40 ہے۔

مزید برآں متعلقہ میڈیکل کیمپس کو ایمبولینس کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے جو انتہائی نگہداشت کے مریضوں کو فوری طور پر ہسپتال پہنچاتی ہے۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی طرح پروونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) نے بھی مختلف مقامات پر کیمپس لگائے ہوئے ہیں۔ ان ہی کیمپس میں رضاکارانہ ڈیوٹی دینے والے یورولوجسٹ ڈاکٹر منان نے بھی ہیضے کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہر سیلاب کے بعد ایسا ہونا ایک یقینی بات تھی اور اسی لیے تمام میڈیکل کیمپس لگتے ہی ان میں ایسی دوائیوں کو رکھ دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ 2010 کے سیلاب میں بھی ان علاقوں میں کام کرچکے ہیں لہذا اس دفعہ ان سمیت دیگر سینئر ڈاکٹرز بھی کافی تجربہ کار ہیں۔

دوسری جانب نوشہرہ کی ضلعی انتظامیہ نے عوام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ دریائے کابل کے قریب جانے سے گریز کریں کیونکہ دریا میں سانپ بہہ کر آ رہے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ نے محکمہ واٸلڈ لاٸف کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ سیلاب کی وجہ سے ملک کے بالاٸی علاقوں سے سانپ اور دیگر جنگلی جانور پانی کے بہاؤ کے ساتھ آ رہے ہیں جس میں کچھ خطرناک اور زہریلے سانپ کی مختلف اقسام بھی شامل ہیں۔

پانی کی سطح میں کمی آنے کے بعد سانپ جان بچانے کے لیے دریا کے کناروں کا رخ کر رہے ہیں لہذا دریائے کابل کے آس پاس آباد لوگ دریا کے قریب جانے سے گریز کریں، خصوصا رات کے اوقات میں دریا کابل کے قریب جانے سے گریز کریں اور ان زہریلے اور سانپوں کے کاٹنے سے بچیں۔

انتظامیہ کے مطابق اکثر سانپ زہریلے اور مہلک نہیں ہوتے، لہذا ممکن حد تک ان سانپوں کو مارنے سے گریز کریں اور ان کو جان بچانے کے لیے محفوظ راستہ دیں تاکہ وہ محفوظ پناہ تلاش کریں۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت